Imran Khan's entry Into Little Viatnam
عمران خان کی ’لٹل ویت نام‘ میں انٹری
ریاض سہیل
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی
پاکستان تحریک انصاف نے جس دادو شہر سے گذشتہ عام انتخابات میں صرف 704 ووٹ لیے تھے وہاں دو روز قبل رکشوں، ریڑھیوں، ہوٹلوں، بجلی کے کھمبوں یعنی ہر طرف تحریک انصاف کے جھنڈے دیکھنے اور سیاسی ترانے سننے کو ملے۔
دادو میں اس بدلتے منظرنامے کی وجہ سابق وزیر اعلیٰ اور وفاقی وزیر لیاقت جتوئی تھے جو کئی دہائیوں سے مسلم لیگ کے مختلف دھڑوں میں رہے اور اب انھوں نے تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کرلی ہے۔
پاکستان میں بحالیِ جمہوریت کی تحریک ایم آر ڈی میں دادو کا متحرک کردار رہا، جہاں ایک احتجاج کے دوران فوج کی فائرنگ میں ہلاکتوں کے بعد اس شہر کو لٹل ویتنام کے نام سے پکارا جاتا تھا۔
دادو میں پاکستان پیپلز پارٹی ایک بڑی سیاست قوت کے طور پر رہی ہے، لیکن بعد میں یہاں سے قوم پرست رہنما عبدالحمید جتوئی متبادل سیاسی قیادت کے طور پر سامنے آئے۔ وہ قوم پرست جماعتوں کے اتحاد سندھ نیشنل الائنس کے سربراہ رہے۔
جب قوم پرستوں کی مسلم لیگ نون کے ساتھ قربتیں بڑھیں تو ان کے بڑے فرزند اعجاز جتوئی اور لیاقت جتوئی مسلم لیگ میں شام ہو گئے۔ بعد میں لیاقت جتوئی وزیر خزانہ، وزیر اعلیٰ اور وفاقی وزیر کے عہدے پر پہنچے اور دادو میں اپنا اثر رسوخ بڑھاتے گئے۔
تجزیہ نگار جامی چانڈیو کا کہنا ہے کہ ’لیاقت جتوئی کا سیاست میں کوئی مثبت کردار نہیں بلکہ ان کا کافی موقع پرستانہ کردار رہا ہے۔ وہ سندھ قومی اتحاد میں رہے، اس کے بعد مسلم لیگ ن، مسلم لیگ ق اور جنرل مشرف کے ساتھ رہے اور مشرف کی آمرانہ پالیسیوں کا دفاع کرتے تھے۔‘
انھوں نے کہا: ’جتوئی کی شمولیت کا صرف ایک مثبت پہلو یہ ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے سامنے اس وقت کوئی مضبوط حریف نہیں، کم از کم کہیں تو اسے مقابلے کا سامنا کرنا پڑے گا۔‘
لیاقت جتوئی دادو ضلعے کی ایک سرگرم اور طاقتور سیاسی شخیصت رہے ہیں۔ اگر گذشتہ عام انتخابات کا جائزہ لیا جائے تو قومی اسمبلی کے حلقے این اے 232 میں پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدوار رفیق جمالی 76876 ووٹ لے کر کامیاب ہوئے تھے جبکہ لیاقت جتوئی کے فرزند کریم جتوئی نے 56838 ووٹ حاصل کیے تھے۔
اسی طرح این اے 233 میں پاکستان پیپلز پارٹی کے ظفر لغاری نے 110292 ووٹ حاصل کیے اور لیاقت جتوئی نے دوسرے نمبر پر 65181 ووٹ لیے تھے۔
تحریک انصاف کے رہنما حلیم عادل شیخ کا کہنا ہے کہ سندھ کے لوگ بھی اب عمران خان کی سوچ اور تحریک انصاف کے خیالات کو اپنا رہے ہیں اور لیاقت جتوئی کے آنے سے بہت بڑا فرق پڑا ہے۔
ان کا کہنا تھا: ’جس انداز سے دادو میں لوگ سڑکوں پر نکلے اس کا مطلب ہے کہ لوگ تبدیلی چاہ رہے ہیں۔ وہ پیپلز پارٹی سے تنگ آ چکے ہیں ان کے پاس پینے کا صاف پانی ہے نہ تعلیم، صحت و صفائی کی سہولیات دستیاب ہیں۔ اس صورت حال میں تحریک انصاف متبادل جماعت کے طو ر پر سامنے آئی ہے۔‘
تجزیہ نگار شہاب اوستو کا کہنا ہے کہ سندھ میں تحریک انصاف کا محور کراچی رہا ہے۔ ان کی کوشش ہے کہ کراچی کہ شہری مڈل کلاس کے ووٹ کو کیش کروائے۔
وہ نہیں سمجھتے کہ مسلم لیگ ن یا تحریک انصاف اندرون سندھ میں کوئی زیادہ دلچسپی رکھتی ہیں۔
شہاب اوستو نے کہا: ’عمران خان اور نواز شریف نے یہ اندازہ لگا لیا ہے کہ وہ کوئی زیادہ بڑا اثر نہیں ڈال سکتے اس وجہ سے ان کی مرکز نگاہ وسطیٰ پنجاب ہے جہاں نشستیں بھی زیادہ ہیں۔‘
سندھ میں مسلم لیگ فنکشنل، مسلم لیگ ن سے وابستہ سیاست دان اور مقامی اثر رسوخ رکھنے والے چھوٹے بڑے وڈیرے، جاگیر دار اور زمیندار زیادہ تر پیپلز پارٹی میں شامل ہو چکے ہیں۔
حال ہی میں مسلم لیگ فنکشنل پی ایس 86 سے نشست ہار گئی۔ یہاں سے جام مدد علی مسلم لیگ فنکشنل کامیاب ہوئے تھے بعد میں انھوں نے مستعفی ہو کر پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر دوبارہ کامیابی حاصل کی۔
اسی طرح کراچی ملیر سے مسلم لیگ ن کے رکن قومی اسمبلی حکیم بلوچ مستعفی ہو کر پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر رکن منتخب ہوئے۔
جامی چانڈیو کا کہنا ہے کہ اس وقت تحریک انصاف کا بھی وہی رویہ ہے جو مسلم لیگ ن کا رہا ہے۔ حالانکہ سندھ میں تحریک انصاف کے لیے جگہ موجود ہے۔
’تحریک انصاف کو یاد رکھنا چاہیے کہ جو لوگ مجبوری میں آئیں گے ان پر اعتبار نہیں کر سکتے کیونکہ وہ وفادار نہیں اور نہ ہی ان کے نظریات ہیں۔ ان کے پاس اور کوئی راستہ نہیں اس لیے وہ شامل ہو رہے ہیں۔‘
تجزیہ نگار شہاب اوستو کا کہنا ہے کہ ’یہ جو بڑے نام ہیں وہ داغدار ہیں صاف نہیں۔ ان لوگوں کو شامل کریں گے تو تحریکِ انصاف کی ساکھ متاثر ہو گی اس سے بہتر ہے کہ مڈل کلاس کے صاف ستھرے لوگوں کو شامل کریں کیونکہ سندھ میں یہ گنجائش موجود ہے کہ یہاں مڈل کلاس کی قیادت آ گے آئے۔‘
گذشتہ عام انتخابات سے قبل تحریک انصاف سندھ میں سرگرم رہی بعد میں اسلام آباد میں دھرنے کے لیے شاہ محمود قریشی نے دورے کیے۔ موجودہ وقت جب پاکستان پیپلز پارٹی کے سربراہ آصف علی زرداری خیبر پختونخواہ میں گئے تو تحریک انصاف سندھ میں بھی محاذ کھولنے کا ارادہ رکھتی ہے۔
سندھ میں محدود سیاسی تحریک کے بارے میں تحریک انصاف کے رہنما حلیم عادل شیخ کا کہنا ہے کہ پاناما لیکس، انتخابات کی اصلاحات اور دھرنوں کی وجہ سے ایک گیپ ضرور آیا ہے لیکن اس کو کم کیا جائے گا۔
عمران خان اگلے ہفتے کراچی میں مارچ کرنے کا ارداہ رکھتے ہیں جبکہ مٹیاری میں جلسہ منعقد کیا جارہا ہے، جو مخدوم خاندان کا آبائی حلقہ ہے۔