بھارتی سپریم کورٹ نے 3 طلاقوں کے کیس کا فیصلہ سنا دیا
بھارتی سپریم کورٹ نے شوہر کی جانب سے بیوی کو بیک وقت 3 طلاقیں دینے کا عمل غیر قانونی قرار دے دیا جس کے بعد بھارتی قانون کے تحت طلاق دینے کا یہ عمل غیر مؤثر قرار پا جائے گا۔ اپنے تاریخی فیصلے میں بھارتی اعلیٰ عدلیہ کا کہنا تھا کہ بیک وقت 3 طلاق دینا عورت کے بنیادی حقوق کی سنگین ترین خلاف ورزی ہے کیونکہ یہ خطرناک عمل ایک لمحے میں شادی کا خاتمہ کردیتا ہے۔ یاد رہے کہ بیوی کو بیک وقت 3 طلاقیں دینے کا عمل مسلمانوں میں عام ہے اور بظاہر بنیادی قوانین کے تحت اس سے طلاق واقع ہوجاتی ہے، تاہم بعض فقہوں نے طویل غور و حوض کے بعد اس میں تبدیلی کر کے گنجائش پیدا کرنے کی کوشش کی ہے بھارتی سپریم کورٹ میں 5 رکنی بینچ کے 3 ججز نے 3 طلاقوں کو غیر مؤثر قرار دینے کے حق میں فیصلہ دیا جبکہ 2 ججز نے اسے برقرار رکھنے کی اختلافی رائے دی جس کے بعد 2۔3 کی اکثریت سے حتمی فیصلہ جاری کردیا گیا۔ فیصلے میں چیف جسٹس آف انڈیا جے ایس کھیہر نے مسلمانوں کے لیے شادی اور طلاق کے بارے میں 6 ماہ کے اندر مؤثر قانون سازی کا حکم بھی دیا۔ سپریم کورٹ میں اس کے خلاف یہ درخواست ایک 35 سالہ مسلمان خاتون نے دائر کی جن کے شوہر نے انہیں 15 سالہ شادی کے بعد بیک وقت 3 طلاقیں دے کر شادی کا اختتام کردیا۔ مذکورہ خاتون کی درخواست کے ساتھ 4 مزید خواتین کی درخواستیں بھی منسلک کی گئیں جو اسی سے متعلق تھیں۔ درخواست دائر ہونے کے بعد سپریم کورٹ نے ایک آئینی بینچ بنانے کا حکم دیا تھا جسے مسلمانوں کے عام طرز عمل زبانی 3 طلاقوں کے بارے میں غور و حوض کرنے کی ہدایت کی گئی کہ آیا اسے آئینی طور پر درست تسلیم کیا جائے یا نہیں۔ بینچ نے آل انڈیا مسلم لا بورڈ سے بھی اس بارے میں مشاورت کی جس کے دوران مسلم لا بورڈ نے اس بات کو تسلیم کیا کہ یہ عمل بدترین ضرور ہے تاہم مذہبی اور شرعی طور پر درست ہے۔ عدالتی ارکان نے سوال اٹھایا کہ ’بظاہر ایک بدترین اور ناپسندیدہ ترین عمل اس قدر عام اور مؤثر کیوں ہے؟‘ جس کا لا بورڈ کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ عدالت میں سماعت کے دوران اس عمل کی مخالفت میں یہ دلائل بھی دیے گئے کہ کئی مسلم ممالک نے بیک وقت 3 زبانی طلاقوں کو غیر قانونی قرار دے رکھا ہے۔ یہ بھی کہا گیا کہ عدالت اس بدترین فعل کو نہ صرف غیر قانونی قرار دے بلکہ یہ بھی واضح کرے کہ یہ دین اسلام کا لازمی اور بنیادی حصہ نہیں ہے۔ سپریم کورٹ کے اس حتمی فیصلے کے بعد بال اب پارلیمنٹ کی کورٹ میں ہے کہ اسے باقاعدہ آئین اور قانون کا حصہ بنا دیا جائے۔ ۔