میاں نواز شریف کا پانچواں اور چھٹا محسن بھی تھا‘ یہ لوگ اگر عین وقت پر سامنے نہ آتے تو بھی شاید 2014ء کا دھرنا کامیاب ہوجاتا لیکن میں ان لوگوں کی طرف جانے سے پہلے چند مزید دلچسپ حقائق آپ کے سامنے لانا چاہتا ہوں۔
ہماری فیصلہ ساز قوتوں نے 1992ء میں تین مسٹر کلین تیار کیے تھے‘ یہ وہ زمانہ تھا جب بینظیر بھٹو اور میاں نواز شریف ایک ایک باری لے چکے تھے‘ اسٹیبلشمنٹ کا خیال تھا یہ دونوں مشکل لوگ ہیں‘ یہ مستقبل میں خوفناک مسائل پیدا کریں گے چنانچہ دونوں جماعتوں کے اندر بااثر‘ متحرک اور صاف ستھرے لوگ ضروری ہیں‘ یہ مسٹرکلین دونوں لیڈروں پر دباؤ بھی ڈال سکیں اور یہ مشکل وقت میں پارٹی بھی چلا سکیں‘ پیپلز پارٹی میں سردار فاروق احمد لغاری اور مسلم لیگ میں میاں شہباز شریف میں پوٹینشل نظر آیا چنانچہ دونوں پر شفقت شروع ہو گئی جب کہ عمران خان کو تیسری قوت بنانے کا فیصلہ کیا گیا‘ آپ اگر تھوڑی سی تحقیق کریں تو آپ یہ جان کر حیران رہ جائیں گے تحریک انصاف کے پہلے سیکریٹری جنرل صدر ضیاء الحق کے قریبی ساتھی جنرل مجیب الرحمن تھے‘ یہ ضیاء الحق کے ریفرنڈم کے ماسٹر مائینڈ بھی تھے۔
عمران خان کی پارٹی کا منشور بھی جنرل مجیب نے تیار کیا تھا اور دفتر بھی انھوں نے کھولا تھا‘یہ طویل عرصہ تک پارٹی کے سیکریٹری جنرل رہے‘ یہ روز دفتر آتے تھے جب کہ عمران خان کبھی کبھی دفتر بیٹھتے تھے‘ ملکی تاریخ میں 1990ء کی دہائی بہت اہم تھی‘فارق احمد لغاری صدر بنے‘ بینظیر بھٹو کی حکومت ختم کی‘ احتساب کے نام پر قومی حکومت بنانے کی کوشش کی‘ ناکام ہوئے‘ پیپلز پارٹی کو توڑنے کے لیے ملت پارٹی بنائی‘ یہ منصوبہ بھی ناکام ہوا اوریہ اکتوبر 2010ء میں بیمار ہو کر انتقال کر گئے یوں پہلا مسٹر کلین تاریخ کا حصہ بن گیا‘ دوسرا مسٹر کلین میاں شہباز شریف ہیں‘ یہ 1997ء میں وزیراعلیٰ پنجاب بنے اور اپنی پرفارمنس سے پوری دنیا کو حیران کر دیا‘ جنرل جہانگیر کرامت ہوں‘ جنرل مشرف ہوں‘ جنرل کیانی ہوں یا پھر جنرل راحیل شریف ہوں فوج کا ہر قائد میاں شہباز شریف کا قدر دان رہا‘ یہ تمام آرمی چیف شہباز شریف کے ساتھ کمفرٹیبل بھی تھے اوریہ انھیں ’’آگے بڑھیں‘‘ کا اشارہ بھی کردیتے رہے‘ جنرل مشرف بریگیڈیئر نیاز کے ذریعے جدہ میں بھی میاں شہباز شریف کے ساتھ رابطے میں تھے۔
آپ فوج کے کسی ریٹائر یا حاضر سروس جنرل سے بات کر لیں وہ میاں شہباز شریف کا ’’فین‘‘ نکلے گا لیکن اس تمام تر سپورٹ‘ محبت‘ تعریف اور قدردانی کے باوجود میاں شہباز شریف اپنے بڑے بھائی کا ساتھ چھوڑنے‘ بغاوت کرنے یا بھائی کو دھوکا دینے کے لیے تیار نہیں ہوئے‘ یہ ان کی وہ واحد کمزوری تھی جس کی وجہ سے یہ آج تک وزیراعظم نہیں بنے لیکن یہ ’’بانڈ‘‘ کب تک برقرار رہے گا‘ پاکستانی قیادت کا مستقبل اس سوال پر استوار ہے اور پیچھے رہ گئے عمران خان تو یہ کرشماتی شخصیت کے مالک ہیں‘ پوری دنیا ان کے نام اور چہرے سے واقف ہے‘ یہ جرات مند بھی ہیں اور ایماندار بھی چنانچہ یہ ملک کی روایتی سیاست اور روایتی جماعتوں کو ’’ڈینٹ‘‘ ڈال سکتے تھے‘ یہ ملک کو متبادل قیادت بھی فراہم کر سکتے تھے لیکن یہ اپنی افتادہ طبع کے اسیرنکلے‘ یہ وہ خرابی ہے جس کی وجہ سے یہ 2011ء تک کوئی خاص کامیابی حاصل نہ کر سکے۔
یہ اپنی پارٹی کو بھی ڈویلپ نہ کرسکے‘ جنرل مشرف نے 2000ء میں انھیں وزیراعظم بنانے کا فیصلہ کیا تھا‘ جنرل مشرف نے عمران خان سے ملاقات بھی کی اور عمران خان نے جنرل مشرف کے ریفرنڈم کا ساتھ بھی دیا لیکن جنرل مشرف کے بقول ’’یہ امیچور تھے‘ انھیں مزید وقت چاہیے تھا‘‘ عمران خان کا یہ وقت 2011ء تک گیا‘ عمران خان نے30اکتوبر کواچانک لاہور میں ایک کامیاب جلسہ کیا اور تمام فیصلہ ساز قوتوں کو حیران کر دیا‘ جنرل کیانی اس وقت آرمی چیف اور جنرل پاشا ڈی جی آئی ایس آئی تھے‘ جنرل پاشا نے جلسے کے بعد عمران خان سے ملاقات کا فیصلہ کیا‘ جنرل کیانی سے باقاعدہ اجازت لی اور یہ لاہور میں زمان پارک میں عمران خان سے ملے۔
جنرل پاشا نے ملاقات کے دوران عمران خا ن سے کہا ’’میں آپ کو ہیرو نہیں سمجھتا‘ میں آپ کو سیاستدان بھی نہیں مانتا‘ میں آپ کو صرف تین وجوہات سے پسند کرتا ہوں‘‘ خان نے وجوہات پوچھیں‘ جنرل پاشا نے جواب دیا ’’آپ اور میری پیدائش کا سال ایک ہے‘ آپ کے والدین بھی جالندھر سے پاکستان آئے تھے اور میرے والدین بھی وہاں سے تعلق رکھتے تھے اور تیسری وجہ میں شاید شاید آپ کی جرات سے متاثر ہوں‘‘ عمران خان نے اس کے بعد جنرل پاشا کے لیے چائے منگوائی اور اپنی لیے اسٹابری جوس‘ جنرل پاشا نے مشورہ دیا آپ اپنی پارٹی پر توجہ دیں‘ اچھے لوگ لے کر آئیں اور پارٹی میں ڈسپلن قائم کریں‘ جنرل پاشا نے عمران خان سے کہا ’’آپ کو اگر مستقبل میں فنڈز کی ضرورت ہوئی تو میں آپ کی مدد کر سکتا ہوں‘‘ عمران خان نے فنڈز لینے سے صاف انکار کر دیا‘ ان کا کہنا تھا ’’جنرل صاحب میں نے جس دن پیسے لے لیے اس دن میرے اندر جرات ختم ہو جائے گی‘‘ جنرل پاشا کے بقول ’’عمران خان کے جواب سے میرے دل میں اس کی قدر میں اضافہ ہو گیا‘‘ جنرل پاشا زمان پارک سے نکلنے لگے تو ایک دلچسپ واقعہ پیش آیا۔
عمران خان جنرل کو باہر چھوڑنے آئے‘ یہ دونوں گاڑی کے قریب پہنچے تو موٹر سائیکل پر دو نوجوان آ گئے‘ عمران خان گھبرا گئے‘ انھوں نے منہ سے خدا حافظ کہا اور جنرل پاشا سے ہاتھ ملائے بغیر اندر چلے گئے‘ جنرل پاشا کو یہ رویہ برا لگا‘ جنرل نے اس کا بدلہ بعد ازاں بنی گالا میں لیا‘ میں یہ واقعہ آپ کو پھر کسی وقت سناؤں گا‘ سردست ہم آگے بڑھتے ہیں‘ جہانگریز ترین اور شفقت محمود کو پاکستان تحریک انصاف میں شامل کرنے کا الزام جنرل پاشا پر لگتا ہے‘ جنرل پاشا ہمیشہ اس الزام کی تردید کرتے ہیں تاہم یہ حقیقت ہے جہانگیر ترین سیاست سے کنارہ کش ہو چکے تھے‘ یہ کاروبار تک محدودہو گئے تھے‘ یہ آصف علی زرداری تھے جنہوں نے جنرل پاشا کو ایوان صدر سے فون کیا اور جہانگیر ترین کو راولپنڈی میں ان کے آفس میں بھجوایا‘ جہانگیر ترین کو ایک سکھ انجینئر کے لیے این او سی چاہیے تھا‘ یہ این او سی تین سال سے لٹکا ہوا تھا‘ جنرل پاشا نے ایک دن میں این او سی جاری کرا دیا اور یوں جہانگیر ترین اور جنرل پاشا میں رابطے شروع ہو گئے۔
جنرل بعد ازاں جہانگیر ترین سے ملاقات کے لیے لودھراں بھی گئے‘ جنرل کیانی اور جنرل پاشا دونوں شفقت محمود کو بھی پسند کرتے تھے‘ یہ جب بھی لاہور جاتے تھے یہ شفقت محمود سے ضرور ملتے تھے لیکن اس کے باوجود جنرل پاشا دعویٰ کرتے ہیں ’’میں نے ان دونوں کو پی ٹی آئی میں شامل نہیں کرایا‘‘ تاہم یہ اپنی نجی محفلوں میں یہ ضرور مانتے ہیں ’’پاکستان پیپلز پارٹی کے دور میں ایک ایسا وقت بھی آیا تھا جب جنرل کیانی حکومت سے مکمل مایوس ہو گئے تھے اور انھوں نے مجھ سے کہا تھا یہ لوگ نہیں چلا سکیں گے‘ ہمیں کچھ کرنا ہو گا ورنہ یہ ملک نہیں بچے گا‘‘ وہ یہ بھی مانتے ہیں یہ اس وقت دونوں پارٹیوں کی قیادت سے مایوس تھے اور وہ یہ بھی مانتے ہیں ’’میں دھرنے کے آئیڈیا کے خلاف تھا‘ میں ریٹائر ہو چکا تھا لیکن میں کہتا رہا تھا‘ جنرل راحیل شریف یہ بوجھ نہیں اٹھاسکیں گے‘ دھرنا کامیاب نہیں ہوگا‘‘۔
ہم اب میاں نواز شریف کے پانچویں محسن کی طرف آتے ہیں‘ یہ پانچواں محسن جاوید ہاشمی تھا‘ جاوید ہاشمی نے عین وقت بغاوت کر کے دھرنے کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی‘ جاوید ہاشمی نے 31 اگست 2014ء کو پہلے پریس کانفرنس کی اور 2 ستمبر کو قومی اسمبلی میں جا کر استعفیٰ دے دیا‘ جاوید ہاشمی کی اچانک پریس کانفرنس نے عمران خان اور اچانک استعفے نے میاں نواز شریف کو پریشان کر دیا‘ کیسے؟ یہ حقیقت بھی بہت دلچسپ ہے‘جاوید ہاشمی کی پریس کانفرنس نے ملٹری اسٹیبلشمنٹ اور سپریم عدلیہ کو ’’بیک فٹ‘‘ پر کر دیا تھا ‘یہ دونوں وضاحتوں پر مجبور ہوگئے اور یوں عمران خان اکیلے ہو گئے جب کہ حکومت جاوید ہاشمی کی قیادت میں پاکستان تحریک انصاف میں فارورڈ بلاک بنوانا چاہتی تھی‘ پاکستان تحریک انصاف کے آٹھ ارکان جاوید ہاشمی کے ساتھ تھے اور چھ رکن حکومت سے رابطے میں تھے۔
خواجہ سعد رفیق نے جاوید ہاشمی کو پیش کش کی ’’آپ پی ٹی آئی کا فارورڈ بلاک بنائیں‘ہم آپ کو حکومت میں شامل کر لیں گے‘ حکومت میں آپ کا اسٹیٹس میاں نواز شریف کے برابر ہو گا‘‘ جاوید ہاشمی اس پیشکش پر اس دن خاموش رہے لیکن اگلے دن قومی اسمبلی میں استعفیٰ پیش کر کے یہ آفر مسترد کر دی، یوں باغی نے عمران خان اور نواز شریف دونوں کو ناراض کر دیا لیکن یہ اس کے باوجود میاں نواز شریف کے محسن ہیں‘ یہ اگر اس دن سامنے نہ آتے تو شاید میاں نواز شریف اس وقت وزیراعظم نہ ہوتے لیکن ان کے ساتھ ساتھ ایک چھٹا کردار بھی تھا‘ وہ کردار چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی تھے‘ وہ اگر دباؤ یا لالچ میں آ جاتے تو شاید دھرنے کی نوبت ہی نہ آتی اور میاں نواز شریف کے ساتھ جون 2014ء میں وہ ہو جاتا جو پانامہ کیس میں 2016ء میں ہوتا رہا اورجو پانامہ کے فیصلے کے بعد ہو گا چنانچہ حکومت کو جاوید ہاشمی اور جسٹس تصدق حسین جیلانی دونوں کا شکریہ بھی ادا کرنا چاہیے‘ یہ ان کے رچرڈ اولسن سے بڑے محسن ہیں۔