شہزادہ ولیم اور شہزادی میڈلٹن کا دورہ پاکستان، مقاصد کیا تھے؟

شاہی جوڑے کا دورہ پاکستان کی سیاحتی انڈسٹری اور بین المذاہب ہم آہنگی کے فروغ میں اہم کردار ادا کرے گا

شہزادہ ولیم اور ان کی اہلیہ کے حالیہ دورہ پاکستان کو کینزنگٹن پیلس کے ترجمان نے پیچیدہ قرار دیا اور اس کی وجہ سکیورٹی خدشات بتائی گئی ۔


بہت کم لوگوں کو اس بات کا علم ہے کہ آج سے تیرہ سال قبل2006ء میں ان کے والد پرنس آف ویلز شہزادہ چارلس پاکستان آئے تو ان کے مجوزہ پروگرام میں پشاور کے ایک اعتدال پسند مدرسے کا دورہ بھی شامل تھا لیکن29 اکتوبر سے تین نومبر تک، شہزادے کے دورے کے دوران باجوڑ کے ایک مدرسے پر ڈرون حملے اور بڑے پیمانے پر طلبہ کی شہادت کے باعث سکیورٹی وجوہات کے با عث مدرسے کا یہ دورہ ممکن نہ ہوا۔

حالیہ دورے میں شہزادہ ولیم اور ان کی اہلیہ کی قرآن مجید سننے کی روداد کو پاکستان اور مسلم دنیا میں بہت دلچسپی سے دیکھا جا رہا ہے۔ بلا شبہ شاہی جوڑے کا یہ اقدام بین المذاہب ہم آہنگی کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کرے گا جس کی آج دنیا کو بہت ضرورت ہے۔
اس سے قبل ولیم کی دادی ملکہ ایلزبتھ خود بھی پاکستان آچکی ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ برطانیہ کا شاہی خاندان اب تک اس سلطنت کے اُن حصوں میں دلچسپی رکھتا ہے جس پر سورج غروب نہیں ہوتا تھا اور اسی لئے گاہے بگاہے اپنے سنہرے ادوار کی یادیں تازہ کرنے کے لئے(انگریزی اصطلاح میں اسے نوسٹلجیا کو مطمئن کرنا بھی کہہ سکتے ہیں) ایسے دورے ضروری ہیں۔

ظاہر ہے کہ یہ دورے سیاسی نہیں ہوتے لیکن ان کے علامتی اثرات کے دور رس ہونے میں کوئی شبہ نہیں ہونا چاہیے۔ نوسٹلجیا کے حوالے سیان دوروں کی علامتی اہمیت اس سے بھی ثابت ہوتی ہے کہ ایسے دورروں میں پاک افغان بارڈر پر واقع پشاور پاک کے ساتھ ساتھ افغانستان کی سرحد سے ملحق کیلاش کا علاقہ چین کی سرحد سے ملحق گلگت بلتستان بھی عموماً شامل ہوتے ہیں جو مملکت برطانیہ کی انڈیا میں آخری سرحدیں یا چیک پوسٹس تھیں۔

اہم بات یہ ہے کہ حالیہ شاہی دورہ برطانوی فارن آفس کی خواہش پر، اس کے اپنے ڈیزائن کے مطابق ترتیب دیا گیا ہے۔ شاہی جوڑے کے پاکستانی ملبوسات، رکشا کی سواری، غیر معمولی سادگی، عوام، بچوں یہاں تک کہ کتوں کے ساتھ بھی گھل مل جانے کی تعریف و توصیف کے ساتھ ساتھ کیٹ مڈلٹن کی آنجہانی ساس پرنسز آف ویلز لیڈی ڈیانا کے تذکرے بھی دوبارہ زبانوں پر ہیں۔

ولیم کی والدہ ڈیانا خود عوام میں گھل مل جانے والی خاتون تھیں۔ ان کے شاہی خاندان سے اختلافات کی ایک وجہ شاہی خاندان کی روایات کے برعکس ان کا عوامی انداز بھی تھا جو ان کی ساس کو قطعاً پسند نہیں تھا لیکن وقت کی ستم ظریفی دیکھئے کہ آج ڈیوک اینڈ ڈچز آف کیمبرج کا ’’عوامی‘‘ دورہ خود برطانوی فارن آفس نے ترتیب دیا ہے کہ ڈیانا اپنی مختصرعمر میں عوامی انداز کو برطانوی شاہی خاندان کی اقدار و روایات کا حصہ بنا گئیں۔

کوئی وقت تھا ،جب ہندوستان میں پیدا ہونے والے برطانوی بچوں کے والدین انہیں برطانیہ بھجوا دیتے تھے کہ انہیں ہندوستان کی ہوا نہ لگ جائے۔’’نائن ٹین ایٹی فور‘‘ نامی مقبول ناول کے مصنف جارج اورویل، اپنے ناول ’’کم‘‘ میں، برطانیہ اور روسی سلطنت کے درمیان گریٹ گیم کے موضوع کو مرکزی خیال بنانے والے اور انگریزی ادب کا پہلا نوبل پرائز حاصل کرنے والے رڈ یارڈ کپلنگ کے علاوہ کشمیر، چین اور مشرقی ترکستان پر اولین سفر ناموں کے مصنف معروف مہم جو سر فرانسس ینگ ہزبینڈ، تینوں ہندوستان میں پیدا ہوئے لیکن انہیں چھوٹی عمر میں انگلستان بھجوا دیا گیا۔

اس دور میں انگریز اپنی سماجی زندگی کو ہندوستانیوں سے قدرے دور رکھنا چاہتے تھے۔ پاکستان کے معروف مورخ ڈاکٹر مبارک علی نے اس موضوع پر ایک پوری کتاب لکھی ہے۔ ہندوستانیوں سے فاصلہ رکھنے میں انگریز کتنا سنجیدہ تھا، اس کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ انگریز طوائفوں کو ہندوستان میں پریکٹس (دھندہ کرنے) کی اجازت نہیں تھی۔

پھر ایک وقت وہ بھی آیا کہ ڈیانا، برطانیہ ہی کی نہیں بلکہ دنیا کی تاریخ کیمقبول ترین برطانوی شہزادی ایک پاکستانی ڈاکٹر کے پیچھے پاکستان پہنچ گئیں۔ عمران خان کی سابق اہلیہ جمائماکی مدد سے وہ پشاور میں ڈاکٹر حسنات کے خاندان سے ملیں لیکن شہزادی کی قریب ترین دوستوں کے مطابق خود ڈاکٹر حسنات نے یہ کہہ کر ان سے شادی سے انکار کر دیا کہ وہ میڈیا کی لائم لائٹ سے دور رہنا چاہتے ہیں۔ پاپا رازی میڈیا کی غیر ذمہ داری نے شہزادی کی جان لے لی لیکن ڈاکٹر حسنات اس میڈیا کی چکا چوند سے خود کو نہ بچا سکے۔

2013 ء میں ایک برطانوی نشریاتی ادارے نے شہزادی کی زندگی پر ایک سیریل نشر کی جس میں ان کی زندگی کے آخری دو برسوںکو فوکس کیا گیا تو ڈاکٹر حسنات سے ان کے رومانس کی تفصیلات دنیا کے سامنے آنا ناگزیر ہوگئیں۔ ٹینا براؤن نامی صحافی نے ’’ڈیانا کرونکلز‘‘ نامی کتاب تصنیف کی جس میں شہزادی کی ذاتی زندگی سے متعلق ان کے ذاتی اسٹاف، دوستوں اور قریبی رشتے داروں سے ڈھائی سو سے زائد انٹرویوز کیے تو ان کی نا آسودہ ازدواجی زندگی اور ڈاکٹر حسنات کا ذکر ناگزیر تھا۔

شہزادی کی متعدد قریبی دوستوں نے گواہی دی کہ مصری نوجوان ’دودی فائد‘ جن کے ساتھ وہ پیرس کی ایک سرنگ میں تیز رفتاری کی وجہ سے ماری گئیں، کا ساتھ محض ڈاکٹر حسنات کو حسد کا شکار کرنا تھا ورنہ شہزادی کو اس نو دولتئے میں کوئی دلچسپی نہ تھی۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ نائن الیون سے چند سال قبل اگرڈٖیانا اس پاکستانی ڈاکٹر کو شادی پر راضی کرنے میں کامیاب ہوجاتیں توبڑھتے ہوئے اسلاموفوبیا کے اس دور میں دنیا پر پاکستان اور اسلام کے حوالے سے کیا اثرات مرتب ہوتے!

پاکستان کے موجودہ وزیر اعظم عمران خان کے شہزادی ڈیانا سے مراسم رہے۔ شہزادہ ولیم بچپن میں اپنی والدہ کے ہمراہ پاکستان آئے تو انہوں نے وزیر اعظم کے گھر کرکٹ کھیلی۔ آج بھی شہزادوں کے ان کی سابق اہلیہ جمائما اور بیٹوں سے مراسم ہیں۔ اُس وقت عمران اور جمائما میاں بیوی تھے۔ ڈیانا کی آخری رسومات کی لائیو فوٹیج میں بھی یہ دونوں دیکھے گئے تھے۔ آخری رسومات میں عمران خان مروجہ رسم کے مطابق سیاہ سوٹ میں ملبوس تھے۔آج بھی شاہی جوڑے کی وزیر اعظم سے ذاتی ملاقات میں کوئی سفارتی یا ڈپلومیٹک تصنع موجود نہیں تھا۔ خان کو برابری کی بنیاد پر سابق آقاؤں کے بچوں سے تعلقات دیکھ کر بہت سے لوگوں کو خوشی ہوئی۔

برطانوی شاہی جوڑے کے عوامی دورے کو برطانوی اخبارات نے بھی بہت کوریج دی۔ امید ہے اس سے پاکستان میں سیاحت کو بھی فروغ ملے گا اور مذہبی ہم آہنگی کو بھی۔ پاکستان میں مغرب سے نفرت اور بے جا تعصب کے روئیے میں بھی کمی آئے گی۔ شاہی جوڑے کے پروگرام میں پاک افغان سرحد کے ایک علاقے کا دورہ بھی شامل تھا جو خبروں کے مطابق موسم کی خرابی کی وجہ سے ممکن نہ ہوا۔

اہم بات جو بہت کم لوگوں کو معلوم ہے وہ یہ ہے کہ ولیم کے والد شہزادہ چارلس خود مذہبی ہم آہنگی کے فروغ میں کوشاں رہے ہیں۔ اکتوبر2006ء میں ہونے والے دورے کے دوران برطانوی اخبار ’گارڈین‘ کی رپورٹ کے مطابق شہزادہ چارلس کو اسلام اور مغرب کے مابین تقسیم کے تناظر میں ایک پل کی حیثیت سے دیکھا جاتا ہے۔ یہ ’مسلم ہیریٹیج‘ نامی ایک ادارے کے سر پرست بھی ہیں جس نے قرون وسطیٰ کے زمانوں کی مسلم ایجادات پر مشتمل نمائش دنیا کے اہم شہروں میں منعقد کی اور ماضی کی شاندار اسلامی تہذیب کو دنیا کے سامنے لانے کا سبب بنی۔ اس ادارے کی سرپرستی ظاہر کرتی ہے کہ اسلامو فوبیا کے اس دور میں شہزادہ چارلس اسلام کا اصل چہرہ دنیا کے سامنے لانے میں ذاتی دلچسپی رکھتے ہیں۔

2006ء میں ان کے مدرسے کا دورہ اگر ممکن ہو جاتا تو دنیا میں پاکستان، دینی مدارس اور خود اسلام کے بارے میں ایک مثبت تصویر ابھرتی لیکن ان کے دورے کے دوران باجوڑ حملے نے جسے پاکستانی فوج کے ترجمان اور افغانستان میں امریکی فوج نے پاکستانی فوج کی اپنی کاروائی قرار دیا، اسے منسوخ کرنے پر مجبور کردیا۔ سوال یہ ہے کہ یہ حملہ ایسے وقت میں کیوں کیا گیا جب اسلام اور مغرب کے درمیان پل کا کردار ادا کرنے کے حوالے سے معروف شہزادہ چارلس ایک مسلمان ملک کے دورے پر تھے۔

یاد رہے کہ جس روز فجر سے پہلے یہ حملہ کیا گیا، اس روز پاک فوج اور قبائلیوں کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا جانا تھا اور اس مدرسے کے مہتمم مولانا لیاقت اس معاہدے میں کلیدی کردار ادا کر رہے تھے۔’لونگ وار‘ نامی ایک تحقیقی جریدے نے اپنی ایک رپورٹ میں یہ سوال اٹھائے کہ ایسے وقت میں جب معاہدہ ہونے جا رہا تھا، اس حملے کا کیا جواز تھا؟ ظاہر ہے کہ حملے کا مقصد معاہدے کو سبوتاژ کرنا تھا لیکن شہزادہ چارلس کے مدرسے کے دورے کو منسوخ کرنا بھی اس کا ایک مقصد ہو سکتا ہے۔ سوال یہ بھی ہے وہ کون سے عناصر تھے جو چاہتے تھے کہ معاہدہ نہ ہویا شہزادہ مدرسے کا دورہ نہ کریں؟ پاکستانی فوج یا ان کے حلیف امریکی؟

مولانا لیاقت اللہ پر یہ الزام عائد کیا گیا کہ انھوں نے القاعدہ کے دہشت گردوں کو پناہ دی ہوئی تھی۔ ایک اہم مغربی اخبار نے لکھا کہ اگر ٹارگٹ مولانا تھے تو انہیں ان کے گھر سے مدرسے کے راستے میں کسی جگہ مارا جا سکتا تھا، یوں بڑی تعداد میں طلبہ کی جان بچائی جاسکتی تھی۔ عین فجر کے وقت مدرسے کے اندر حملے کا فیصلہ کس کا تھا؟’بورو آف انویسٹی گیشن‘ نامی تحقیقی ادارے کا یہ بھی کہنا ہے کہ حملے کا جواز ایمن الزواہری کی وہاں موجودگی بھی بتائی گئی حالانکہ ایمن الظواہری کبھی باجوڑ نہیں گئے۔ بعد ازاں خود مغربی میڈیا کی تحقیق کے مطابق یہ امریکی ڈرون کا حملہ ثابت ہوا جس میں پاکستانی ہیلی کاپٹر بھی شامل تھے۔

عالمی جریدے ’اکنامسٹ‘ کے مطابق دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان پر اس حوالے سے تنقید ہوتی رہی ہے کہ یہ مغربی رہنماؤںکے دوروں سے پہلے مشتبہ دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر حملے کرتے ہیں تاکہ مغرب کو یہ بتایا جا سکے کہ پاکستان دہشت گردی کی جنگ میں اپنا حصہ ڈال رہا ہے۔

اس سے قبل صدر بش کی پاکستان آمد کے موقع پر بھی ایک کاروائی کی گئی۔ یاد رہے کہ صدر بش کے برعکس جن کے پروگرام میں اسلام آباد سے باہر کسی مقام کا دورہ شامل نہیں تھا ، شہزادہ چارلس اور ان کی اہلیہ کے دورے میں پاک افغان بارڈر اور شمالی علاقہ جات کے مختلف علاقوں کا دورہ بھی شامل تھا۔

اگر پشاور کے مدرسے کا دورہ ممکن ہوتا تو بڑھتے ہوئے اسلاموفوبیا کے اس دور میں دنیا کو پاکستان، دینی مدارس اور خوداسلام کے بارے میں ایک مثبت تاثر ملتا جو شاید اسلاموفوبیا کی انڈسٹری کے کرتا دھرتاؤں کو منظور نہیں تھا۔ امید ہے کہ اب تیرہ برس بعد ،شہزادہ ولیم اور ان کی اہلیہ کیٹ مڈلٹن کا دورہ پاکستان اور اس کی بڑھتی ہوئی سیاحتی انڈسٹری کے بارے میں ایک مثبت تاثر قائم کرنے میں بھی مدد دے گا اور بین المذاہب ہم آہنگی کے فروغ میں بھی۔
>