جیجیل یا جُجورانا: پاکستان میں بجلی کی تاروں سے ’پرندوں کے بادشاہ‘ کو خطرہ
محمد زبیر خان
صحافی
جیجیل یعنی ویسڑن ٹراگوپن دنیا کا خوبصورت ترین اور شرمیلے مزاج کا ایک نایاب پرندہ ہے۔ یہ شکاریوں سے آنکھ بچا کر اپنی نسل کے بقا کی اپنی سی کوشش میں ہے۔ پاکستان کے شمالی علاقے کوھستان میں ویسڑن ٹراگوپن کو جیجیل اور بھارت ہماچل پردیش میں ججورانا کے نام سے پکارا جاتا ہے جس کا مطلب ’پرندوں کا بادشاہ‘ ہے۔
عموماً پرندوں کا یہ بادشاہ رات کو اور علی الصبح باہر نکلتا ہے۔
انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر (آئی یو سی این) کے مطابق اس وقت دنیا بھر میں اس پرندے کی سب سے زیادہ تعداد پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کی وادی پالس میں پائی جاتی ہے۔ تاہم یونین نے اس نایاب پرندے کی مکمل معدومی کا خدشہ بھی ظاہر کیا ہے۔
اس وقت دنیا میں ویسڑن ٹراگوپن کی مجموعی تعداد پچیس سو سے تین ہزار تک بتائی جاتی ہے۔
محکمہ وائلڈ لائف کے ایک سروے کے مطابق پالس میں اس پرندے کے چھ سو جوڑے یعنی ان کی کل تعداد بارہ سو تک بنتی ہے۔ محکمہ جنگلی حیات کے اہلکار افتخاراحمد نے بی بی سی کو بتایا کہ انڈیا اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے چند علاقوں میں بھی یہ پرندہ پایا جاتا ہے۔
افتخار احمد کے مطابق گرمیوں میں چوبیس سو سے چھتیس سو میٹر اور سردیوں میں دو ہزار سے اٹھائیس سو میڑ بلندی کے جنگلات اس کی آماجگاہیں ہوتی ہیں۔
پرندوں کے بادشاہ سے ہر کوئی دوستی کا خواہشمند
رب نواز، جن کا پرانا نام راب ویل تھا، کو برطانیہ سے پاکستان منتقل ہوئے تقریباً 25 سال ہونے کو ہیں۔ ان کی پاکستان منتقتل ہونے کی ایک وجہ یہ پرندہ بھی تھا۔
وہ اس وقت ایک ادارے ورلڈ وائلڈ فنڈ پاکستان (ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان) میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔ انھوں نے ہی پہلی مرتبہ اس نایاب پرندے کی وادی پالس میں موجودگی کے بارے میں ویڈیو بنائی تھی۔
رب نواز نے بی بی سی کو بتایا کہ ’میں پہلی مرتبہ پاکستان سنہ 1994 میں پرندوں کے تحفظ سے متعلق کام کرنے والے ایک ادارے کی دعوت پر آیا۔‘
انھوں نے بتایا کہ اس دورے کے بعد انھیں اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یو این ڈی پی کے ساتھ بھی تین سال تک پاکستان میں کام کرنے کا موقع ملا اور اس دوران وہ وادی پالس کے قریبی علاقے مانسہرہ میں قیام پذیر رہے۔
ان کا کہنا ہے کہ وہ پہلی بار دسمبر 1996 میں وادی پالس میں اس پرندے کی تلاش میں گئے تھے۔
رب نواز کا کہنا ہے اس پرندے کی تلاش میں مقامی آبادی نے بھی ان کی مدد کی۔ انھوں نے ایک واقعے کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ ’جب ہم نے مقامی آبادی کو اپنے دورے کا مقصد بتایا تو بابا راول نامی ایک بزرگ نے کہا کہ جیجیل تو ہمارا بھی دوست ہے۔‘
رب نواز کے مطابق بابا راول نے انھیں بتایا کہ جیجل کے لیے وادی میں ملک رؤف نامی شکاری سے ملنا ہو گا۔
وہ بتاتے ہیں کہ ’تین چار گھنٹے انتہائی مشکل پہاڑ سر کرنے کے بعد جب وہ ملک رؤف کے علاقے میں پہنچے تو اچانک جیجیل ہمارے سامنے سے گزر کر چلا گیا۔ تھوڑا آگے بڑھے تو یہ پرندے مزید تعداد میں نظر آئے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’خوش کے مارے ہم نے چیخنا اور ناچنا شروع کر دیا جس پر ملک روف نامی شکاری پریشان ہو گیا کہ یہ تو عام پرندہ ہے اس پر یہ لوگ اتنے خوش اور پرجوش کیوں ہیں۔‘
ان کا کہنا ہے کہ شکاری یہ نہیں جانتا تھا کہ یہ کتنا قیمتی اور نایاب پرندہ ہے۔
جیجیل سے پہلی ملاقات
رب نواز نے بتایا کہ جب انھوں نے ڈبلیو پی اے کے چیرمین بریگیڈیئر ریٹائرڈ مختیار محمد کو وادی پالس میں جیجیل کی موجودگی کے بارے میں بتایا تو انھوں نے رب نواز کو چیلنج دیا کہ وہ پالس جا کر اس پرندے کی فلم بنائیں۔
رب نواز بتاتے ہیں کہ ’اس کے لیے موسم گرما میں وہ اپنے چند ساتھیوں کے ہمراہ دوبارہ پالس گئے۔
’کیمپ لگایا مگر وہاں پر ہم آگ نہیں لگا سکتے تھے کیونکہ پھر جیجیل سامنے نہ آتا۔ ہمارے کیمرہ مین رضا عباس بہت سگریٹ پیتے تھے مگر یہاں یہ سب ممکن نہیں تھا۔ ہم چار دن تک جیجیل کو دیکھنے اور اس کی عکس بندی کی کوشش کرتے رہے مگر کامیابی نہیں ملی۔‘
رب نواز بتاتے ہیں کہ ’یہ پرندہ ہمارے سامنے ہی تھا،اس کی آواز آرہی تھی مگر مشکل یہ تھی کہ وہ نظر نہیں آرہا تھا۔ یہ پانچواں اور آخری دن تھا ہم بہت مایوس ہو چکے تھے۔‘
ان کے مطابق جب وہ تھوڑی چڑھائی پر گئے تو انھیں دوبارہ اس پرندے کی آواز سنائی دی جس پر وہ فوراً اپنے ساتھی کیمرہ مین کے پاس آئے اور انھیں کچھ چڑھائی پر چلنے کو کہا۔
’مجھے تقریباً پانچ چھ میٹر کے فاصلے سے پھر جیجیل کی آواز سنائی دی۔ میں نے پیچھے دیکھا تو ’پرندوں کا بادشاہ‘ بالکل میرے سامنے تھا۔ میں نے فوراً ہی کیمرہ نکالا اور ریکارڈ بٹن دبا دیا۔‘
ان کا کہنا ہے کہ وہ اس پرندے کی چھ سات منٹ کی فلم بنانے میں کامیاب رہے جس کا بین الاقوامی سطح پر بہت چرچا ہوا کیونکہ جنگلی حیات کے ماہرین پہلی مرتبہ اس پرندے کی فلم بننے پر بہت پرجوش تھے۔
پرندوں کے بادشاہ کا شکار ممنوع
جیجیل کی اہمیت اور نایابی کا اندازہ ہونے کے بعد وادی پالس کے مقامی عمائدین نے جرگہ بلا کر اس پرندے کی حفاظت یقینی بنانے اور اس کے شکار پر پابندی عائد کرنے کا فیصلہ کیا۔
اکبر خان اسی مقامی جرگہ کے رکن ہیں۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ اس نایاب پرندے کے شکار پر وادی پالس میں جرمانہ بھی عائد ہے کیونکہ جیجیل کی وجہ سے وادی پالس کی اہمیت میں بہت اضافہ ہوا ہے۔
’ہم لوگ جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے قائم کیے گئے محمکے سمیت اس پرندے کی حفاظت کے لیے کوشاں دیگر غیر سرکاری اداروں کے ساتھ مکمل تعاون کرتے ہیں۔‘
محمد مستان اس پرندے کے ساتھ مقامی آبادی کے لگاؤ کا ایک منفرد اور انوکھا واقعہ بتاتے ہیں کہ وہ چند برس قبل اپنے ساتھیوں کے ہمراہ دعوت پر وادی پالس گئے جہاں انھیں علم ہوا کہ میزبانوں نے جیجیل کا شکار کر کے اپنے کچھ خاص مہمانوں کو اس کا گوشت پیش کیا لیکن اہلیان علاقہ نے متفقہ طور پر ان کے کھانے کی دعوت کا بائیکاٹ کر دیا۔
وہ بتاتے ہیں اس کے بعد دوبارہ ایسا کوئی واقعہ سامنے نہیں آیا جس میں مقامی آبادی نے اس پرندے کا شکار کیا ہوا یا اس کو نقصان پہنچایا ہو۔
جیجیل پر کسی وقت بھی بجلی گر سکتی ہے
پالس کے رہائشیوں کا کہنا ہے کہ حفاظتی اقدامات اٹھانے سے اس پرندے کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔
مگر پرندوں کے بادشاہ کو یہ تحفظ شاید اب ذیادہ عرصہ حاصل نہیں رہے گا۔ اس کی وجہ خراب ماحول نہیں بلکہ اسے خراب کرنے والے ترقیاتی منصوبے ہیں۔ سرکاری دستاویزات کے مطابق داسو ڈیم کی مجوزہ ٹرانسمیشن لائن وادی پالس سے گزرے گی۔
مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ ’ٹرانسمیشن لائن بچھانے کے لیے بنیادی کام بھی شروع ہو چکا ہے یعنی کھمبے اور تاریں علاقے میں پہنچا دی گئی ہیں جو ان پرندوں کے لیے کسی پھانسی کے پھندے سے کم نہیں ہیں۔‘
واپڈا کی تیار کردہ ماحولیات کی تشخیص رپورٹ کے مطابق پالس سے ٹرانسمیشن لائن گزرنے سے ویسڑن ٹراگوپن سمیت دیگر نایاب پرندوں اور جنگلی حیات کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔
وادی پالس کو پرندوں کے حوالے سے برڈ لائف انٹرنیشنل لندن نے انتہائی اہم علاقہ قرار دیا ہے۔ تاہم واپڈا کی رپورٹ کے مطابق داسو ڈیم منصوبے کے علاقے میں ان پرندوں کی آماجگاہیں محفوظ نہیں رہیں گی۔
واپڈا کی رپورٹ کے منظر عام پر آنے کے بعد صوبہ خیبر پختونخوا کے محکمہ وائلڈ لائف نے حکومت کو تجویز دی ہے کہ کوھستان کی وادی پالس کو جنگلی حیات کے لیے محفوظ علاقہ قرار دے کر تحفظ یقینی بنایا جائے۔
اس میں جیجیل یعنی ویسڑن ٹراگوپن کے تحفظ کی سفارش پہلے نمبر پر کی گئی ہے۔
اس سفارش کی وجہ بتاتے ہوئے وائلڈ لائف کے افتخار احمد کے مطابق ٹرانسمیشن لائن کا وادی پالس سے گزرنا جیجیل کے لیے خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔ کیونکہ اکثر پرندے ٹرانسمیشن لائن اور بجلی کے کھمبوں سے ٹکرا کر ہلاک ہو جاتے ہیں۔
افتخار احمد کہتے ہیں کہ ’غیر فطری ہلاکتوں کا شکار ہونے سے اس پرندے کی آبادی مزید کم یا مکمل معدوم ہوسکتی ہے۔‘
جیجیل کے محافظوں کی پریشانی
وادی پالس کے باسیوں نےویسڑن ٹراگوپن کی حفاظت کا بیڑا اٹھا رکھا ہے۔ مقامی رہائشی اور پیشہ کے لحاظ سے استاد مستان خان نے بی بی سی کو بتایا کہ ’جیجیل ہمارے لیے تعلیم، روزگار اور صحت کے مواقع لے کر آیا ہے۔ اس کا تحفظ ہمارے لیے سب سے اہم ہے۔‘
وہ بتاتے ہیں کہ’علاقے کے سب لوگ جیجیل کا تحفظ اپنے بچوں کی طرح کرتے ہیں۔‘ ان کا کہنا ہے کہ ٹرانسمیشن لائن کو وادی پالس کے بجائے کسی دوسری جگہ سے بھی گزارا جاسکتا ہے۔
اسی وادی کے باسی ایک اور سکول ٹیچر امان اللہ کا کہنا ہے کہ اس پرندے کی بدولت پالس کے کئی مسائل حل ہوئے ہیں جس کی وجہ سے اب مقامی آبادی کو بھی اس کی اہمیت کا اندازہ ہے