Results for "خصوصی رپورٹ"
ایمرجنسی لگانے سے پہلے مشرف نے صلاح و مشورہ نہیں کیا، انکوائری رپورٹ
musharraf did not consult before implementing emergency inquiry reports
اسلام آباد (انصار عباسی) ایف آئی اے کی انکوائری سے ایسا کوئی ثبوت نہیں ملا کہ سابق فوجی حکمراں جنرل (ر) پرویز مشرف نے اپنے 3 نومبر 2007ء کے اقدام سے قبل کابینہ، وزیراعظم اور گورنروں وغیرہ سے کوئی مشورہ کیا۔ 
لیفٹیننٹ جنرل (ر) خالد مقبول، متعلقہ سیکرٹریز اور صدر و وزیراعظم کے پی ایس صاحبان کسی نے بھی سابق آمر کے دعوے کی تصدیق نہیں کی۔ 
3 نومبر 2007ء کو ایمرجنسی کے نفاذ کی ایف آئی اے رپورٹ جس پر پرویز مشرف کے خلاف انتہائی غداری کے مرتکب ہونے کا مقدمہ بنا، اس کے مطابق اس بات کے ’’ناقابل تردید ثبوت اور ٹھوس دستاویزی شہادتیں‘‘ موجود ہیں کہ سابق فوجی آمر نے آئین کو سبوتاژ کیا اور غیر قانونی طور پر اپنے شخصی اقتدار کو طول دینے کے لئے ججوں کو برطرف کیا۔ 
ایف آئی اے انکوائری رپورٹ کی دستیاب نقل کے مطابق اس وقت کے اٹارنی جنرل، کابینہ سیکرٹری، صدر و وزیراعظم کے سیکرٹریز اور سیکرٹری قانون میں سے کسی نے بھی پرویز مشرف کے دعوے کی توثیق نہیں کی کہ انہوں نے اپنے غیرآئینی اقدام کے لئے کابینہ سمیت کئی ایک سے صلاح و مشورے کئے تھے۔ 
اس وقت کے گورنر پنجاب لیفٹیننٹ جنرل (ر) خالد مقبول نے بھی صلاح و مشورے کے حوالے سے پرویز مشرف کے دعوے کی تردید کی۔ 
اس وقت کے اٹارنی جنرل جسٹس (ر) ملک قیوم نے بھی واضح طور پر تردید کی کہ انہیں کوئی تحریری سفارش پیش کی گئی اور نہ ہی ایمرجنسی کے نفاذ کا معاملہ ان کے ساتھ زیربحث آیا یا مشورہ مانگا گیا۔ 
رپورٹ کے مطابق ملک قیوم کا کہنا تھا کہ انہیں 3 نومبر کےاقدام کا کوئی پیشگی علم نہ تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ بات بڑے پیمانے پر معلوم تھی کہ پرویز مشرف ایمرجنسی کے اعلان کےلئے وزیراعظم کے سینئر مشیر قانون شریف الدین پیرزادہ سے مشورے لے رہے تھے۔ 
وزارت دفاع اور جی ایچ کیو کے حوالے سے رپورٹ میں کہا گیا ’’انکوائری ٹیم نے اعلان ایمرجنسی سے متعلقہ سمری، نوٹس اور تجاویز وغیرہ حاصل کرنے کی کوشش کی۔ تاہم وزارت دفاع کی جانب سے انظار رضوی کو فوکل پرسن مقرر کئے جانے کے باوجود انکوائری ٹیم کو کوئی متعلقہ دستاویز فراہم کی گئی اور نہ ہی دکھائی گئی۔ 
اس وقت کے پرنسپل سیکرٹری قانون جسٹس (ر) میاں محمد اجمل نے ایف آئی اے ٹیم کو بتایا کہ انہیں اعلان ایمرجنسی کے حوالے سے کسی سمری کا کوئی علم ہے اور نہ ہی ان کے دفتر سے یہ اعلان جاری ہوا ہے تاہم اعلان جاری ہونے پر وزیراعظم سیکرٹریٹ نے سپریم کورٹ کے جج صاحبان کی برطرفی کے نوٹیفکیشن پر دستخط کرنے کے لئے کہا۔ 
میاں اجمل کے مطابق پرویز مشرف نے ان سے کبھی مشورہ نہیں چاہا۔ بڑے پیمانے پر یہی سمجھا جاتا تھا کہ پرویز مشرف ملک قیوم، شریف الدین پیرزادہ اور احمد رضا قصوری ہی سے صلاح و مشورے کرتے ہیں۔ 
اس وقت کے سیکرٹری کابینہ مسعود عالم رضوی نے کہا کہ ان کے دور ملازمت میں اس وقت کے وزیراعظم شوکت عزیز نے صدر کو ایمرجنسی کے نفاذ کا کبھی مشورہ نہیں دیا جبکہ 3 نومبر 2007ء کو پرویز مشرف نے بحیثیت چیف آف آرمی اسٹاف کے دستخط کئے۔ 
رضوی نے مزید کہا کہ ان کے علم کے مطابق اعلان ایمرجنسی سے قبل اس کے نفاذ پر کابینہ میں غور ہوا اور نہ ہی وزیراعظم نے سمری صدر کو پیش کی۔ تاہم رضوی اس بات کی وضاحت نہیں کر سکے کہ انہوں نے پرویز مشرف کے دستخط سے اعلان ایمرجنسی کا نوٹیفکیشن وزیراعظم کی منظوری کے بغیر کیوں جاری کیا جو حکومت کے ایگزیکٹیو سربراہ تھے۔ 
اس وقت صدر کے سیکرٹری محسن حفیظ کے مطابق ایمرجنسی کے نفاذ کا حکم چیف آف آرمی اسٹاف کی حیثیت سے پرویز مشرف نے جاری کیا لہٰذا صدارتی سیکرٹریٹ کا اس سے کوئی لینا دینا نہیں۔ صدر کے اس وقت سیکرٹری کو اس موضوع پر اجلاس، سمری اور تفصیلات کا بھی کوئی علم نہیں۔ 
تاہم انہوں نے سوال اُٹھایا کہ کس طرح سے کابینہ سیکرٹری وزیراعظم کی تحریری منظوری کے بغیر ایمرجنسی نفاذ کا نوٹیفکیشن جاری کر سکتا ہے؟ اس وقت وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری خالد سعید نے کہا کہ ان کے علم کے مطابق شوکت عزیز اور پرویز مشرف کے درمیان کوئی باقاعدہ سرکاری ملاقات نہیں ہوئی اور ان کی معلومات کے مطابق وزیراعظم دفتر کو ججوں کے رویوں پر کوئی رپورٹ، شہادت یا دستاویز وزارت قانون کی جانب سے موصول نہیں ہوئی۔ 
تاہم وہ اس کی وضاحت نہیں کر سکے کہ کابینہ سیکرٹری نے وزیراعظم کے علم یا منظوری کے بغیر نفاذ ایمرجنسی کا نوٹیفکیشن کیوں جاری کیا؟ چیف آف آرمی اسٹاف اور کابینہ سیکرٹری نے وزیراعظم سے بالواسطہ منظوری حاصل کی ہو۔ 
اس وقت کے گورنر پنجاب لیفٹیننٹ جنرل (ر) خالد مقبول نے ایف آئی اے ٹیم کو اپنے تحریری بیان میں کہا کہ پرویز مشرف کا نفاذ ایمرجنسی پر وزیراعظم اور گورنروں وغیرہ سے مشاورت کا دعویٰ غلط ہے۔ 
خالد مقبول سے قانون کے مطابق ذاتی طور پر اپنا بیان ریکارڈ کرانے کے لئے کہا گیا لیکن وہ ایف آئی اے میں پیش نہیں ہوئے۔ 
ایف آئی اے رپورٹ میں کہا گیا کہ پرویز مشرف کو بھی تحقیقات میں شامل ہونے کے لئے کہا گیا اور اپنے دفاع میں بیان دیں لیکن ان کے وکلاء صفائی نے بتایا کہ ریٹائرڈ جنرل بیمار پڑ گئے ہیں اور تحقیقات میں شامل نہیں ہو سکتے۔ 
بعدازاں وہ شامل ہو جائیں گے لیکن انہوں نے تعاون نہیں کیا۔ ایف آئی اے ٹیم نےا پنی تحقیقات 16 نومبر 2013ء کو مکمل کر لی تھی۔ سفارش کی گئی کہ وفاقی حکومت میں مجاز اتھارٹی خصوصی عدالت میں پرویز مشرف کے خلاف انتہائی غداری ایکٹ کے تحت شکایت درج کرا سکتی ہے۔ 
ٹیم نے مزید سفارش کی کہ مجاز اتھارٹی 3 نومبر 2007ء کو غیرآئینی ایمرجنسی کے نفاذ میں سہولت کاروں کے کردار کو بھی خاطر میں لے سکتی ہے۔

MediaToday Friday, 20 December 2019
جیجیل یا جُجورانا: پاکستان میں بجلی کی تاروں سے ’پرندوں کے بادشاہ‘ کو خطرہ

جیجیل یا جُجورانا: پاکستان میں بجلی کی تاروں سے ’پرندوں کے بادشاہ‘ کو خطرہ

محمد زبیر خان

MediaToday Sunday, 3 November 2019
'خلا میں روزے رکھنے کا تجربہ میں کبھی نہیں بھول سکتا'
ماہ رمضان کا آغاز ہونے والا ہے مگر کیا آپ یقین کریں گے دنیا میں کم از کم ایک شخص ایسا ہے جس نے زمین سے باہر خلا میں روزہ رکھا۔
ی ہاں 1985 میں خلا میں جانے والے پہلے عرب خلا باز شہزادہ سلطان بن سلمان نے 1405 ہجری کے رمضان میں امریکی اسپیس شٹل ڈسکوری کے سفر کے دوران روزہ رکھا۔
کچھ عرصے پہلے عرب نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے شہزادہ سلطان نے اس بارے میں اپنے تاثرات کے بارے میں بتایا۔
انہوں نے بتایا کہ اپنے ناقابل فراموش خلائی سفر کے دوران انہوں نے 6 دن میں قرآن مجید کو ختم کیا اور اس کے لیے انہوں نے اپنے سونے کا وقت مختص کیا تھا۔
وہ 29 ویں روزے کے دن خلائی سفر پر روزانہ ہوئے تھے اور انہوں نے خلا میں روزے کو ناقابل فراموش تجربہ قرار دیا۔
ان کا کہنا تھا 'اس سال رمضان کا مہینہ گرم موسم میں آیا تھا، جبکہ میں ہیوسٹن میں اسپیس سینٹر میں اس سفر کے لیے خصوصی تربیت لے رہا تھا، تربیت کے دوران ہمیں شدید گرمی اور پیاس کی کیفیات سے گزارا گیا،یہ سفر پہلے 24 رمضان کو شیڈول تھا مگر 29 ویں روزے تک التوا میں چلا گیا'۔
اس تربیت کے دوران وہ روزے رکھتے رہے اور ناسا کے ڈاکٹرز نے روزے سے ان کی صحت پر مرتب ہونے والے اثرات کا تجزیہ بھی کیا۔
29 ویں روزے کو وہ اپنی ٹیم کے ہمراہ خلائی شٹل پر روزہ رکھ کر سوار ہوئے جبکہ خلا میں روزے کے اوقات کے حوالے سے انہوں نے سعودی عالم شیخ عبدالعزیز بن باز سے مشورہ بھی کیا۔
سعودی شہزادے کا کہنا تھا 'مذہبی عالم نے مجھے بتایا کہ میں سحر اور افطار اس وقت کے مطابق کروں جہاں سے میں روزہ رکھ کر سفر پر روزانہ ہوا تھا، میں نے اپنا سفر فلوریڈا سے کیا تھا'۔
انہوں نے اس امریکی ریاست میں سورج غروب ہونے کا وقت ذہن میں افطار کیا جبکہ انہوں نے ریڈیو میں سنا کہ سعودی عرب میں اگلے دن عید ہے۔
تاہم انہوں نے خلا میں دیکھا کہ اس دن نیا چاند انہیں نظر نہیں آیا بلکہ اگلے دن انہوں نے نئے چاند کو دیکھا اور سعودی سائنسی ٹیم کو اس بارے میں آگاہ کیا۔
اس کے بعد سعودی حکام نے تحقیقات کرکے تصدیق کی کہ رمضان کا ایک روزہ رہ گیا ہے اور اس کا کفارہ ادا کرنا ہوگا۔
انہوں نے اس خلائی سفر کے دوران نمازیں زمین کے اوقات کے مطابق پڑھیں جبکہ وضو کے لیے گیلے نیپکن کا استعمال کیا کیونکہ وہاں کشش ثقل نہ ہونے کی وجہ سے پانی سے وضو کرنا مشکل تھا۔

MediaToday Monday, 6 May 2019
بیساکھی میلے میں پاکستان آئی بھارتی خاتون کا قبول اسلام

بیساکھی میلے میں پاکستان آئی بھارتی خاتون کا قبول اسلام
بھارتی خاتون کرن بالا نے لاہور کی جامعہ نعیمیہ پہنچ کر اسلام قبول کرلیا اور دفتر خارجہ میں ویزے کی مدت میں اضافے کی درخواست دیدی ہے۔
بیساکھی میلے میں پاکستان آئی بھارتی خاتون کا قبول اسلام
بیساکھی میلے میں شرکت کے لئے پاکستان آنے والی بھارتی خاتون کرن بالا دختر منوہر لال نے وزارت خارجہ کے نام درخواست میں لکھا ہے کہ میں16 اپریل کو لاہور کی جامعہ نعیمیہ میں اپنی خوشی اور رضا مندی سے اسلام قبول کیا ہے۔
خاتون نے مزید کہا کہ میرا اسلامی نام آمنہ بی بی رکھا گیا ہے، اسلام قبول کرنے کے بعد میں نے لاہور کے علاقے ہنجروال کے رہائشی نوجوان اعظم سے شادی کرلی ہے۔
درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ میں واپس بھارت نہیں جانا چاہتی ہوں اس لئے میرے ویزے کی مدت میں توسیع کی جائے، درخواست کے ساتھ جامعہ نعیمیہ کے سربراہ ڈاکٹر راغب نعیمی کا تصدیق نامہ بھی منسلک ہے۔
بیساکھی میلے میں پاکستان آئی بھارتی خاتون کا قبول اسلام
میڈیا رپورٹس کے مطابق راغب نعیمی نے کرن بالا کے اسلام قبول کرنے اور نیا نام آمنہ بی بی رکھنے کی تصدیق کی اور کہا کہ وہ 16 اپریل کو دوپہر ساڑھے 12 بجے 4 مردوں کے ہمراہ ان کے مدرسے میں تشریف لائی تھیں اور ہمارے ادارے کے مولانا قاری مبشر صاحب کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا تھا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ قاری مبشر نے تمام قانونی کاغذات دیکھ کر انہیں مسلمان کیا،اب نو مسلم آمنہ بی بی اور ان کے شوہر اعظم کہاں اس بارے میں انہیں کچھ معلوم نہیں۔
ذرائع کے مطابق بھارتی خاتون 12 اپریل کو سکھ یاتریوں کے ہمراہ پاکستان آئی تھی جبکہ اس کے ویزے کی مدت 21 اپریل کو ختم ہو جائے گی،بیساکھی کے تہوار میں شرکت کے لیے بھارت سے 17 سو سے زیادہ سکھ یاتری 12 اپریل کو پاکستان آئے تھے۔

MediaToday Wednesday, 18 April 2018
>