آپ کو کورونا وائرس کے ٹیسٹ کی ضرورت ہے یا نہیں؟موبائل ایپ سب بتائے گی
آپ کو کورونا وائرس کے ٹیسٹ کی ضرورت ہے یا نہیں؟موبائل ایپ سب بتائے گی
کیا آپ کو کورونا وائرس کا ٹیسٹ کروانا چاہیے؟ اس سوال کا جواب کسی کے پاس نہیں ہے، کھانسی، زکام یا بخار ہونے کی صورت میں کیا آپ کورونا کے مشتبہ مریض ہوسکتے ہیں ؟ ان تمام سوالوں نے عام لوگوں میں ایک خوف کی فضا قائم کردی ہے، لیکن اب آپ گھر بیٹھے جان سکتے ہیں کہ کیا آپ کو کورونا وائرس کے ٹیسٹ کی ضرورت ہے یا نہیں۔
آغا خان یونیورسٹی ہسپتال نے ایک انقلابی موبائل ایپلیکیشن تیار کی ہے جو آپ کو
بتائے گی کہ کیا آپ میں کورونا وائرس ہونے کا چانس کتنے فیصد ہے۔
A new app means that you don’t need to visit the hospital to screen yourself for the coronavirus. CoronaCheck, an Android app jointly launched by AKU and its teaching hospital, is helping users to safely and easily assess their symptoms from home. https://t.co/mzSk8gHq3i#COVID19pic.twitter.com/SWplMi8tuR
کورونا چیک کے نام سے بنائی گئی ایپلیکیشن کے ذریعے لوگ گھر بیٹھے اپنی علامات کو ٹیسٹ کرسکتے ہیں اور یہ ایپلیکیشن بتائے گی کہ کیا ٹویٹر پر جاری ایک پیغام میں آغا خان یونیورسٹی ہسپتال کا کہنا تھا کہ ” اس ایپلیکشن کا مطلب یہ ہے کہ آپ کو اب کورونا وائرس کی تشخیص کیلئے ہسپتال کا رخ نہیں کرنا پڑے گا آغا خان یونیورسٹی اوراس کے ٹیچنگ ہسپتال کی مشترکہ کوششوں سے یہ ایپلیکیشن تیار کی ہے جس کی مدد سے آپ گھر بیٹھے اپنی علامات کو ٹیسٹ کرکے جان سکتے ہیں کہ آپ کو کورونا کے ٹیسٹ کی ضرورت ہے یا نہیں”یہ علامات کورونا وائرس کی ہیں یا کسی موسمی تبدیلی کی۔
یاد رہے کہ مارچ کے اختتام میں آغا خان ہسپتال نے اعلان کیا تھا کہ وہ کورونا وائرس کے مزید ٹیسٹ نہیں کرسکتے کیونکہ ہسپتال میں کورونا کے مریضوں کی تعداد گنجائش سے بڑھ گئی ہے اور اب ان کے پاس مزید ٹیسٹنگ کٹس بھی نہیں ہیں۔
ایمرجنسی لگانے سے پہلے مشرف نے صلاح و مشورہ نہیں کیا، انکوائری رپورٹ
اسلام آباد (انصار عباسی) ایف آئی اے کی انکوائری سے ایسا کوئی ثبوت نہیں ملا کہ سابق فوجی حکمراں جنرل (ر) پرویز مشرف نے اپنے 3 نومبر 2007ء کے اقدام سے قبل کابینہ، وزیراعظم اور گورنروں وغیرہ سے کوئی مشورہ کیا۔
لیفٹیننٹ جنرل (ر) خالد مقبول، متعلقہ سیکرٹریز اور صدر و وزیراعظم کے پی ایس صاحبان کسی نے بھی سابق آمر کے دعوے کی تصدیق نہیں کی۔
3 نومبر 2007ء کو ایمرجنسی کے نفاذ کی ایف آئی اے رپورٹ جس پر پرویز مشرف کے خلاف انتہائی غداری کے مرتکب ہونے کا مقدمہ بنا، اس کے مطابق اس بات کے ’’ناقابل تردید ثبوت اور ٹھوس دستاویزی شہادتیں‘‘ موجود ہیں کہ سابق فوجی آمر نے آئین کو سبوتاژ کیا اور غیر قانونی طور پر اپنے شخصی اقتدار کو طول دینے کے لئے ججوں کو برطرف کیا۔
ایف آئی اے انکوائری رپورٹ کی دستیاب نقل کے مطابق اس وقت کے اٹارنی جنرل، کابینہ سیکرٹری، صدر و وزیراعظم کے سیکرٹریز اور سیکرٹری قانون میں سے کسی نے بھی پرویز مشرف کے دعوے کی توثیق نہیں کی کہ انہوں نے اپنے غیرآئینی اقدام کے لئے کابینہ سمیت کئی ایک سے صلاح و مشورے کئے تھے۔
اس وقت کے گورنر پنجاب لیفٹیننٹ جنرل (ر) خالد مقبول نے بھی صلاح و مشورے کے حوالے سے پرویز مشرف کے دعوے کی تردید کی۔
اس وقت کے اٹارنی جنرل جسٹس (ر) ملک قیوم نے بھی واضح طور پر تردید کی کہ انہیں کوئی تحریری سفارش پیش کی گئی اور نہ ہی ایمرجنسی کے نفاذ کا معاملہ ان کے ساتھ زیربحث آیا یا مشورہ مانگا گیا۔
رپورٹ کے مطابق ملک قیوم کا کہنا تھا کہ انہیں 3 نومبر کےاقدام کا کوئی پیشگی علم نہ تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ بات بڑے پیمانے پر معلوم تھی کہ پرویز مشرف ایمرجنسی کے اعلان کےلئے وزیراعظم کے سینئر مشیر قانون شریف الدین پیرزادہ سے مشورے لے رہے تھے۔
وزارت دفاع اور جی ایچ کیو کے حوالے سے رپورٹ میں کہا گیا ’’انکوائری ٹیم نے اعلان ایمرجنسی سے متعلقہ سمری، نوٹس اور تجاویز وغیرہ حاصل کرنے کی کوشش کی۔ تاہم وزارت دفاع کی جانب سے انظار رضوی کو فوکل پرسن مقرر کئے جانے کے باوجود انکوائری ٹیم کو کوئی متعلقہ دستاویز فراہم کی گئی اور نہ ہی دکھائی گئی۔
اس وقت کے پرنسپل سیکرٹری قانون جسٹس (ر) میاں محمد اجمل نے ایف آئی اے ٹیم کو بتایا کہ انہیں اعلان ایمرجنسی کے حوالے سے کسی سمری کا کوئی علم ہے اور نہ ہی ان کے دفتر سے یہ اعلان جاری ہوا ہے تاہم اعلان جاری ہونے پر وزیراعظم سیکرٹریٹ نے سپریم کورٹ کے جج صاحبان کی برطرفی کے نوٹیفکیشن پر دستخط کرنے کے لئے کہا۔
میاں اجمل کے مطابق پرویز مشرف نے ان سے کبھی مشورہ نہیں چاہا۔ بڑے پیمانے پر یہی سمجھا جاتا تھا کہ پرویز مشرف ملک قیوم، شریف الدین پیرزادہ اور احمد رضا قصوری ہی سے صلاح و مشورے کرتے ہیں۔
اس وقت کے سیکرٹری کابینہ مسعود عالم رضوی نے کہا کہ ان کے دور ملازمت میں اس وقت کے وزیراعظم شوکت عزیز نے صدر کو ایمرجنسی کے نفاذ کا کبھی مشورہ نہیں دیا جبکہ 3 نومبر 2007ء کو پرویز مشرف نے بحیثیت چیف آف آرمی اسٹاف کے دستخط کئے۔
رضوی نے مزید کہا کہ ان کے علم کے مطابق اعلان ایمرجنسی سے قبل اس کے نفاذ پر کابینہ میں غور ہوا اور نہ ہی وزیراعظم نے سمری صدر کو پیش کی۔ تاہم رضوی اس بات کی وضاحت نہیں کر سکے کہ انہوں نے پرویز مشرف کے دستخط سے اعلان ایمرجنسی کا نوٹیفکیشن وزیراعظم کی منظوری کے بغیر کیوں جاری کیا جو حکومت کے ایگزیکٹیو سربراہ تھے۔
اس وقت صدر کے سیکرٹری محسن حفیظ کے مطابق ایمرجنسی کے نفاذ کا حکم چیف آف آرمی اسٹاف کی حیثیت سے پرویز مشرف نے جاری کیا لہٰذا صدارتی سیکرٹریٹ کا اس سے کوئی لینا دینا نہیں۔ صدر کے اس وقت سیکرٹری کو اس موضوع پر اجلاس، سمری اور تفصیلات کا بھی کوئی علم نہیں۔
تاہم انہوں نے سوال اُٹھایا کہ کس طرح سے کابینہ سیکرٹری وزیراعظم کی تحریری منظوری کے بغیر ایمرجنسی نفاذ کا نوٹیفکیشن جاری کر سکتا ہے؟ اس وقت وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری خالد سعید نے کہا کہ ان کے علم کے مطابق شوکت عزیز اور پرویز مشرف کے درمیان کوئی باقاعدہ سرکاری ملاقات نہیں ہوئی اور ان کی معلومات کے مطابق وزیراعظم دفتر کو ججوں کے رویوں پر کوئی رپورٹ، شہادت یا دستاویز وزارت قانون کی جانب سے موصول نہیں ہوئی۔
تاہم وہ اس کی وضاحت نہیں کر سکے کہ کابینہ سیکرٹری نے وزیراعظم کے علم یا منظوری کے بغیر نفاذ ایمرجنسی کا نوٹیفکیشن کیوں جاری کیا؟ چیف آف آرمی اسٹاف اور کابینہ سیکرٹری نے وزیراعظم سے بالواسطہ منظوری حاصل کی ہو۔
اس وقت کے گورنر پنجاب لیفٹیننٹ جنرل (ر) خالد مقبول نے ایف آئی اے ٹیم کو اپنے تحریری بیان میں کہا کہ پرویز مشرف کا نفاذ ایمرجنسی پر وزیراعظم اور گورنروں وغیرہ سے مشاورت کا دعویٰ غلط ہے۔
خالد مقبول سے قانون کے مطابق ذاتی طور پر اپنا بیان ریکارڈ کرانے کے لئے کہا گیا لیکن وہ ایف آئی اے میں پیش نہیں ہوئے۔
ایف آئی اے رپورٹ میں کہا گیا کہ پرویز مشرف کو بھی تحقیقات میں شامل ہونے کے لئے کہا گیا اور اپنے دفاع میں بیان دیں لیکن ان کے وکلاء صفائی نے بتایا کہ ریٹائرڈ جنرل بیمار پڑ گئے ہیں اور تحقیقات میں شامل نہیں ہو سکتے۔
بعدازاں وہ شامل ہو جائیں گے لیکن انہوں نے تعاون نہیں کیا۔ ایف آئی اے ٹیم نےا پنی تحقیقات 16 نومبر 2013ء کو مکمل کر لی تھی۔ سفارش کی گئی کہ وفاقی حکومت میں مجاز اتھارٹی خصوصی عدالت میں پرویز مشرف کے خلاف انتہائی غداری ایکٹ کے تحت شکایت درج کرا سکتی ہے۔
ٹیم نے مزید سفارش کی کہ مجاز اتھارٹی 3 نومبر 2007ء کو غیرآئینی ایمرجنسی کے نفاذ میں سہولت کاروں کے کردار کو بھی خاطر میں لے سکتی ہے۔
اعصام الحق کا احتجاج: پاکستان اور انڈیا کے درمیان ڈیوس کپ کا مقابلہ پاکستان سے باہر ہوا تو وہ حصہ نہیں لیں گے
عبدالرشید شکور
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی
پاکستانی ٹینس کھلاڑی اعصام الحق نے کہا ہے کہ اگر پاکستان اور انڈیا کے درمیان ڈیوس کپ ٹینس مقابلہ پاکستان سے کہیں اور منتقل کیا گیا تو وہ احتجاجاً اس میں حصہ نہیں لیں گے۔
یہ مقابلہ اس سال ستمبر میں اسلام آباد میں منعقد ہونا تھا جسے نومبر تک ملتوی کر دیا گیا تھا لیکن اس ماہ کے پہلے ہفتے میں انٹرنیشنل ٹینس فیڈریشن نے یہ مقابلہ پاکستان سے باہر منتقل کرنے کا فیصلہ کیا تھا جس پر پاکستان ٹینس فیڈریشن نے اس فیصلے کے خلاف اپیل کی تھی۔
انٹرنیشنل ٹینس فیڈریشن (آئی ٹی ایف) اور انٹرنیشنل انڈیپنڈنٹ ٹریبونل (آئی آئی ٹی) پیر کو یہ فیصلہ کرنے والے ہیں کہ پاکستان اور انڈیا کے درمیان ڈیوس کپ مقابلہ کہاں ہو گا۔
اعصام الحق نے پیر کو پاکستان ٹینس فیڈریشن کے صدر سلیم سیف اللہ کو بھیجے گئے خط میں لکھا ہے کہ ’یہ جان کر بہت دکھ ہوا ہے کہ انٹرنیشنل ٹینس فیڈریشن مبینہ طور پر انڈیا کے دباؤ میں آ کر مسلسل اس بات پر اصرار کر رہی ہے کہ ڈیوس کپ کا مقابلہ پاکستان سے باہر منعقد ہو۔‘
انھوں نے مزید لکھا کہ ’یہ سراسر نا انصافی ہے لہٰذا انھوں نے فیصلہ کیا ہے کہ اگر یہ مقابلہ پاکستان سے باہر ہوا تو وہ بطور احتجاج اس میں حصہ نہیں لیں گے۔‘
بعد ازاں اعصام الحق نے بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’اگر ڈیوس کپ کا یہ مقابلہ کسی دوسرے ملک منتقل ہوتا ہے تو یہ فیصلہ جانبداری پر مبنی ہو گا۔ پاکستان کے ساتھ نامناسب سلوک روا رکھا جارہا ہے۔‘
اعصام الحق کا کہنا تھا کہ بھارتی ٹینس ٹیم کا پاکستان نہ آنا ان کی سمجھ سے باہر ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’کرتارپور راہداری سے روزانہ بڑی تعداد میں بھارتی آرہے ہیں، بھارتی ٹینس فیڈریشن کس بنیاد پر یہ کہتی ہے کہ پاکستان میں سکیورٹی کا مسئلہ ہے۔‘
اعصام الحق نے کہا کہ سری لنکا کی کرکٹ ٹیم ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی کھیل کر گئی ہے اور اب وہ آئندہ ماہ دوبارہ ٹیسٹ سیریز کھیلنے آنے والی ہے جبکہ بنگلہ دیش کی خواتین کرکٹ ٹیم نے بھی پاکستان کا دورہ کیا ہے اور پشاور میں نیشنل گیمز کا انعقاد خوش اسلوبی سے ہوا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا ’سب سے اہم بات برطانوی شہزادے اور شہزادی کا پاکستان کا دورہ ہے جس نے دنیا بھر میں یہ پیغام دیا ہے کہ پاکستان میں سکیورٹی کا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔‘
اعصام الحق کا کہنا ہے کہ انھیں پاکستان کی نمائندگی پر فخر ہے لیکن ان کا ڈیوس کپ نہ کھیلنے کا فیصلہ انٹرنیشنل ٹینس فیڈریشن کو یہ بتانے کے لیے ہے کہ وہ غلط کر رہی ہے۔
اعصام الحق کا کہنا ہے کہ ماضی میں وہ بھارتی کھلاڑی کے ساتھ کھیلے تو ان پر کافی اعتراض کیا گیا اور جب وہ اسرائیلی کھلاڑی کے ساتھ کھیلے تو پورا ملک ان کے خلاف اٹھ کھڑا ہوا تھا لیکن وہ سمجھتے ہیں کہ انھوں نے کوئی غلط کام نہیں کیا۔
انھوں نے کہا کہ ’کھیل کو سیاست اور مذہب سے الگ رکھا جائے اور اب بھی وہ یہی سمجھتے ہیں۔'
اعصام الحق نے کہا کہ ’وہ کھیلیں یا نہیں کھیلیں لیکن اس مقابلے کا پاکستان سے باہر منعقد ہونا پاکستان کی شکست ہو گی اور اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم بھارت کی طاقت کو تسلیم کر رہے ہیں۔‘
جیجیل یا جُجورانا: پاکستان میں بجلی کی تاروں سے ’پرندوں کے بادشاہ‘ کو خطرہ
جیجیل یا جُجورانا: پاکستان میں بجلی کی تاروں سے ’پرندوں کے بادشاہ‘ کو خطرہ
محمد زبیر خان
صحافی
جیجیل یعنی ویسڑن ٹراگوپن دنیا کا خوبصورت ترین اور شرمیلے مزاج کا ایک نایاب پرندہ ہے۔ یہ شکاریوں سے آنکھ بچا کر اپنی نسل کے بقا کی اپنی سی کوشش میں ہے۔ پاکستان کے شمالی علاقے کوھستان میں ویسڑن ٹراگوپن کو جیجیل اور بھارت ہماچل پردیش میں ججورانا کے نام سے پکارا جاتا ہے جس کا مطلب ’پرندوں کا بادشاہ‘ ہے۔
عموماً پرندوں کا یہ بادشاہ رات کو اور علی الصبح باہر نکلتا ہے۔
انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر (آئی یو سی این) کے مطابق اس وقت دنیا بھر میں اس پرندے کی سب سے زیادہ تعداد پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کی وادی پالس میں پائی جاتی ہے۔ تاہم یونین نے اس نایاب پرندے کی مکمل معدومی کا خدشہ بھی ظاہر کیا ہے۔
اس وقت دنیا میں ویسڑن ٹراگوپن کی مجموعی تعداد پچیس سو سے تین ہزار تک بتائی جاتی ہے۔
محکمہ وائلڈ لائف کے ایک سروے کے مطابق پالس میں اس پرندے کے چھ سو جوڑے یعنی ان کی کل تعداد بارہ سو تک بنتی ہے۔ محکمہ جنگلی حیات کے اہلکار افتخاراحمد نے بی بی سی کو بتایا کہ انڈیا اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے چند علاقوں میں بھی یہ پرندہ پایا جاتا ہے۔
افتخار احمد کے مطابق گرمیوں میں چوبیس سو سے چھتیس سو میٹر اور سردیوں میں دو ہزار سے اٹھائیس سو میڑ بلندی کے جنگلات اس کی آماجگاہیں ہوتی ہیں۔
پرندوں کے بادشاہ سے ہر کوئی دوستی کا خواہشمند
رب نواز، جن کا پرانا نام راب ویل تھا، کو برطانیہ سے پاکستان منتقل ہوئے تقریباً 25 سال ہونے کو ہیں۔ ان کی پاکستان منتقتل ہونے کی ایک وجہ یہ پرندہ بھی تھا۔
وہ اس وقت ایک ادارے ورلڈ وائلڈ فنڈ پاکستان (ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان) میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔ انھوں نے ہی پہلی مرتبہ اس نایاب پرندے کی وادی پالس میں موجودگی کے بارے میں ویڈیو بنائی تھی۔
رب نواز نے بی بی سی کو بتایا کہ ’میں پہلی مرتبہ پاکستان سنہ 1994 میں پرندوں کے تحفظ سے متعلق کام کرنے والے ایک ادارے کی دعوت پر آیا۔‘
انھوں نے بتایا کہ اس دورے کے بعد انھیں اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یو این ڈی پی کے ساتھ بھی تین سال تک پاکستان میں کام کرنے کا موقع ملا اور اس دوران وہ وادی پالس کے قریبی علاقے مانسہرہ میں قیام پذیر رہے۔
ان کا کہنا ہے کہ وہ پہلی بار دسمبر 1996 میں وادی پالس میں اس پرندے کی تلاش میں گئے تھے۔
رب نواز کا کہنا ہے اس پرندے کی تلاش میں مقامی آبادی نے بھی ان کی مدد کی۔ انھوں نے ایک واقعے کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ ’جب ہم نے مقامی آبادی کو اپنے دورے کا مقصد بتایا تو بابا راول نامی ایک بزرگ نے کہا کہ جیجیل تو ہمارا بھی دوست ہے۔‘
رب نواز کے مطابق بابا راول نے انھیں بتایا کہ جیجل کے لیے وادی میں ملک رؤف نامی شکاری سے ملنا ہو گا۔
وہ بتاتے ہیں کہ ’تین چار گھنٹے انتہائی مشکل پہاڑ سر کرنے کے بعد جب وہ ملک رؤف کے علاقے میں پہنچے تو اچانک جیجیل ہمارے سامنے سے گزر کر چلا گیا۔ تھوڑا آگے بڑھے تو یہ پرندے مزید تعداد میں نظر آئے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’خوش کے مارے ہم نے چیخنا اور ناچنا شروع کر دیا جس پر ملک روف نامی شکاری پریشان ہو گیا کہ یہ تو عام پرندہ ہے اس پر یہ لوگ اتنے خوش اور پرجوش کیوں ہیں۔‘
ان کا کہنا ہے کہ شکاری یہ نہیں جانتا تھا کہ یہ کتنا قیمتی اور نایاب پرندہ ہے۔
جیجیل سے پہلی ملاقات
رب نواز نے بتایا کہ جب انھوں نے ڈبلیو پی اے کے چیرمین بریگیڈیئر ریٹائرڈ مختیار محمد کو وادی پالس میں جیجیل کی موجودگی کے بارے میں بتایا تو انھوں نے رب نواز کو چیلنج دیا کہ وہ پالس جا کر اس پرندے کی فلم بنائیں۔
رب نواز بتاتے ہیں کہ ’اس کے لیے موسم گرما میں وہ اپنے چند ساتھیوں کے ہمراہ دوبارہ پالس گئے۔
’کیمپ لگایا مگر وہاں پر ہم آگ نہیں لگا سکتے تھے کیونکہ پھر جیجیل سامنے نہ آتا۔ ہمارے کیمرہ مین رضا عباس بہت سگریٹ پیتے تھے مگر یہاں یہ سب ممکن نہیں تھا۔ ہم چار دن تک جیجیل کو دیکھنے اور اس کی عکس بندی کی کوشش کرتے رہے مگر کامیابی نہیں ملی۔‘
رب نواز بتاتے ہیں کہ ’یہ پرندہ ہمارے سامنے ہی تھا،اس کی آواز آرہی تھی مگر مشکل یہ تھی کہ وہ نظر نہیں آرہا تھا۔ یہ پانچواں اور آخری دن تھا ہم بہت مایوس ہو چکے تھے۔‘
ان کے مطابق جب وہ تھوڑی چڑھائی پر گئے تو انھیں دوبارہ اس پرندے کی آواز سنائی دی جس پر وہ فوراً اپنے ساتھی کیمرہ مین کے پاس آئے اور انھیں کچھ چڑھائی پر چلنے کو کہا۔
’مجھے تقریباً پانچ چھ میٹر کے فاصلے سے پھر جیجیل کی آواز سنائی دی۔ میں نے پیچھے دیکھا تو ’پرندوں کا بادشاہ‘ بالکل میرے سامنے تھا۔ میں نے فوراً ہی کیمرہ نکالا اور ریکارڈ بٹن دبا دیا۔‘
ان کا کہنا ہے کہ وہ اس پرندے کی چھ سات منٹ کی فلم بنانے میں کامیاب رہے جس کا بین الاقوامی سطح پر بہت چرچا ہوا کیونکہ جنگلی حیات کے ماہرین پہلی مرتبہ اس پرندے کی فلم بننے پر بہت پرجوش تھے۔
پرندوں کے بادشاہ کا شکار ممنوع
جیجیل کی اہمیت اور نایابی کا اندازہ ہونے کے بعد وادی پالس کے مقامی عمائدین نے جرگہ بلا کر اس پرندے کی حفاظت یقینی بنانے اور اس کے شکار پر پابندی عائد کرنے کا فیصلہ کیا۔
اکبر خان اسی مقامی جرگہ کے رکن ہیں۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ اس نایاب پرندے کے شکار پر وادی پالس میں جرمانہ بھی عائد ہے کیونکہ جیجیل کی وجہ سے وادی پالس کی اہمیت میں بہت اضافہ ہوا ہے۔
’ہم لوگ جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے قائم کیے گئے محمکے سمیت اس پرندے کی حفاظت کے لیے کوشاں دیگر غیر سرکاری اداروں کے ساتھ مکمل تعاون کرتے ہیں۔‘
محمد مستان اس پرندے کے ساتھ مقامی آبادی کے لگاؤ کا ایک منفرد اور انوکھا واقعہ بتاتے ہیں کہ وہ چند برس قبل اپنے ساتھیوں کے ہمراہ دعوت پر وادی پالس گئے جہاں انھیں علم ہوا کہ میزبانوں نے جیجیل کا شکار کر کے اپنے کچھ خاص مہمانوں کو اس کا گوشت پیش کیا لیکن اہلیان علاقہ نے متفقہ طور پر ان کے کھانے کی دعوت کا بائیکاٹ کر دیا۔
وہ بتاتے ہیں اس کے بعد دوبارہ ایسا کوئی واقعہ سامنے نہیں آیا جس میں مقامی آبادی نے اس پرندے کا شکار کیا ہوا یا اس کو نقصان پہنچایا ہو۔
جیجیل پر کسی وقت بھی بجلی گر سکتی ہے
پالس کے رہائشیوں کا کہنا ہے کہ حفاظتی اقدامات اٹھانے سے اس پرندے کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔
مگر پرندوں کے بادشاہ کو یہ تحفظ شاید اب ذیادہ عرصہ حاصل نہیں رہے گا۔ اس کی وجہ خراب ماحول نہیں بلکہ اسے خراب کرنے والے ترقیاتی منصوبے ہیں۔ سرکاری دستاویزات کے مطابق داسو ڈیم کی مجوزہ ٹرانسمیشن لائن وادی پالس سے گزرے گی۔
مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ ’ٹرانسمیشن لائن بچھانے کے لیے بنیادی کام بھی شروع ہو چکا ہے یعنی کھمبے اور تاریں علاقے میں پہنچا دی گئی ہیں جو ان پرندوں کے لیے کسی پھانسی کے پھندے سے کم نہیں ہیں۔‘
واپڈا کی تیار کردہ ماحولیات کی تشخیص رپورٹ کے مطابق پالس سے ٹرانسمیشن لائن گزرنے سے ویسڑن ٹراگوپن سمیت دیگر نایاب پرندوں اور جنگلی حیات کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔
وادی پالس کو پرندوں کے حوالے سے برڈ لائف انٹرنیشنل لندن نے انتہائی اہم علاقہ قرار دیا ہے۔ تاہم واپڈا کی رپورٹ کے مطابق داسو ڈیم منصوبے کے علاقے میں ان پرندوں کی آماجگاہیں محفوظ نہیں رہیں گی۔
واپڈا کی رپورٹ کے منظر عام پر آنے کے بعد صوبہ خیبر پختونخوا کے محکمہ وائلڈ لائف نے حکومت کو تجویز دی ہے کہ کوھستان کی وادی پالس کو جنگلی حیات کے لیے محفوظ علاقہ قرار دے کر تحفظ یقینی بنایا جائے۔
اس میں جیجیل یعنی ویسڑن ٹراگوپن کے تحفظ کی سفارش پہلے نمبر پر کی گئی ہے۔
اس سفارش کی وجہ بتاتے ہوئے وائلڈ لائف کے افتخار احمد کے مطابق ٹرانسمیشن لائن کا وادی پالس سے گزرنا جیجیل کے لیے خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔ کیونکہ اکثر پرندے ٹرانسمیشن لائن اور بجلی کے کھمبوں سے ٹکرا کر ہلاک ہو جاتے ہیں۔
افتخار احمد کہتے ہیں کہ ’غیر فطری ہلاکتوں کا شکار ہونے سے اس پرندے کی آبادی مزید کم یا مکمل معدوم ہوسکتی ہے۔‘
جیجیل کے محافظوں کی پریشانی
وادی پالس کے باسیوں نےویسڑن ٹراگوپن کی حفاظت کا بیڑا اٹھا رکھا ہے۔ مقامی رہائشی اور پیشہ کے لحاظ سے استاد مستان خان نے بی بی سی کو بتایا کہ ’جیجیل ہمارے لیے تعلیم، روزگار اور صحت کے مواقع لے کر آیا ہے۔ اس کا تحفظ ہمارے لیے سب سے اہم ہے۔‘
وہ بتاتے ہیں کہ’علاقے کے سب لوگ جیجیل کا تحفظ اپنے بچوں کی طرح کرتے ہیں۔‘ ان کا کہنا ہے کہ ٹرانسمیشن لائن کو وادی پالس کے بجائے کسی دوسری جگہ سے بھی گزارا جاسکتا ہے۔
اسی وادی کے باسی ایک اور سکول ٹیچر امان اللہ کا کہنا ہے کہ اس پرندے کی بدولت پالس کے کئیمسائل حل ہوئے ہیں جس کی وجہ سے اب مقامی آبادی کو بھی اس کی اہمیت کا اندازہ ہے
شہزادہ ولیم اور شہزادی میڈلٹن کا دورہ پاکستان، مقاصد کیا تھے؟
شاہی جوڑے کا دورہ پاکستان کی سیاحتی انڈسٹری اور بین المذاہب ہم آہنگی کے فروغ میں اہم کردار ادا کرے گا
شہزادہ ولیم اور ان کی اہلیہ کے حالیہ دورہ پاکستان کو کینزنگٹن پیلس کے ترجمان نے پیچیدہ قرار دیا اور اس کی وجہ سکیورٹی خدشات بتائی گئی ۔
بہت کم لوگوں کو اس بات کا علم ہے کہ آج سے تیرہ سال قبل2006ء میں ان کے والد پرنس آف ویلز شہزادہ چارلس پاکستان آئے تو ان کے مجوزہ پروگرام میں پشاور کے ایک اعتدال پسند مدرسے کا دورہ بھی شامل تھا لیکن29 اکتوبر سے تین نومبر تک، شہزادے کے دورے کے دوران باجوڑ کے ایک مدرسے پر ڈرون حملے اور بڑے پیمانے پر طلبہ کی شہادت کے باعث سکیورٹی وجوہات کے با عث مدرسے کا یہ دورہ ممکن نہ ہوا۔
حالیہ دورے میں شہزادہ ولیم اور ان کی اہلیہ کی قرآن مجید سننے کی روداد کو پاکستان اور مسلم دنیا میں بہت دلچسپی سے دیکھا جا رہا ہے۔ بلا شبہ شاہی جوڑے کا یہ اقدام بین المذاہب ہم آہنگی کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کرے گا جس کی آج دنیا کو بہت ضرورت ہے۔
اس سے قبل ولیم کی دادی ملکہ ایلزبتھ خود بھی پاکستان آچکی ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ برطانیہ کا شاہی خاندان اب تک اس سلطنت کے اُن حصوں میں دلچسپی رکھتا ہے جس پر سورج غروب نہیں ہوتا تھا اور اسی لئے گاہے بگاہے اپنے سنہرے ادوار کی یادیں تازہ کرنے کے لئے(انگریزی اصطلاح میں اسے نوسٹلجیا کو مطمئن کرنا بھی کہہ سکتے ہیں) ایسے دورے ضروری ہیں۔
ظاہر ہے کہ یہ دورے سیاسی نہیں ہوتے لیکن ان کے علامتی اثرات کے دور رس ہونے میں کوئی شبہ نہیں ہونا چاہیے۔ نوسٹلجیا کے حوالے سیان دوروں کی علامتی اہمیت اس سے بھی ثابت ہوتی ہے کہ ایسے دورروں میں پاک افغان بارڈر پر واقع پشاور پاک کے ساتھ ساتھ افغانستان کی سرحد سے ملحق کیلاش کا علاقہ چین کی سرحد سے ملحق گلگت بلتستان بھی عموماً شامل ہوتے ہیں جو مملکت برطانیہ کی انڈیا میں آخری سرحدیں یا چیک پوسٹس تھیں۔
اہم بات یہ ہے کہ حالیہ شاہی دورہ برطانوی فارن آفس کی خواہش پر، اس کے اپنے ڈیزائن کے مطابق ترتیب دیا گیا ہے۔ شاہی جوڑے کے پاکستانی ملبوسات، رکشا کی سواری، غیر معمولی سادگی، عوام، بچوں یہاں تک کہ کتوں کے ساتھ بھی گھل مل جانے کی تعریف و توصیف کے ساتھ ساتھ کیٹ مڈلٹن کی آنجہانی ساس پرنسز آف ویلز لیڈی ڈیانا کے تذکرے بھی دوبارہ زبانوں پر ہیں۔
ولیم کی والدہ ڈیانا خود عوام میں گھل مل جانے والی خاتون تھیں۔ ان کے شاہی خاندان سے اختلافات کی ایک وجہ شاہی خاندان کی روایات کے برعکس ان کا عوامی انداز بھی تھا جو ان کی ساس کو قطعاً پسند نہیں تھا لیکن وقت کی ستم ظریفی دیکھئے کہ آج ڈیوک اینڈ ڈچز آف کیمبرج کا ’’عوامی‘‘ دورہ خود برطانوی فارن آفس نے ترتیب دیا ہے کہ ڈیانا اپنی مختصرعمر میں عوامی انداز کو برطانوی شاہی خاندان کی اقدار و روایات کا حصہ بنا گئیں۔
کوئی وقت تھا ،جب ہندوستان میں پیدا ہونے والے برطانوی بچوں کے والدین انہیں برطانیہ بھجوا دیتے تھے کہ انہیں ہندوستان کی ہوا نہ لگ جائے۔’’نائن ٹین ایٹی فور‘‘ نامی مقبول ناول کے مصنف جارج اورویل، اپنے ناول ’’کم‘‘ میں، برطانیہ اور روسی سلطنت کے درمیان گریٹ گیم کے موضوع کو مرکزی خیال بنانے والے اور انگریزی ادب کا پہلا نوبل پرائز حاصل کرنے والے رڈ یارڈ کپلنگ کے علاوہ کشمیر، چین اور مشرقی ترکستان پر اولین سفر ناموں کے مصنف معروف مہم جو سر فرانسس ینگ ہزبینڈ، تینوں ہندوستان میں پیدا ہوئے لیکن انہیں چھوٹی عمر میں انگلستان بھجوا دیا گیا۔
اس دور میں انگریز اپنی سماجی زندگی کو ہندوستانیوں سے قدرے دور رکھنا چاہتے تھے۔ پاکستان کے معروف مورخ ڈاکٹر مبارک علی نے اس موضوع پر ایک پوری کتاب لکھی ہے۔ ہندوستانیوں سے فاصلہ رکھنے میں انگریز کتنا سنجیدہ تھا، اس کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ انگریز طوائفوں کو ہندوستان میں پریکٹس (دھندہ کرنے) کی اجازت نہیں تھی۔
پھر ایک وقت وہ بھی آیا کہ ڈیانا، برطانیہ ہی کی نہیں بلکہ دنیا کی تاریخ کیمقبول ترین برطانوی شہزادی ایک پاکستانی ڈاکٹر کے پیچھے پاکستان پہنچ گئیں۔ عمران خان کی سابق اہلیہ جمائماکی مدد سے وہ پشاور میں ڈاکٹر حسنات کے خاندان سے ملیں لیکن شہزادی کی قریب ترین دوستوں کے مطابق خود ڈاکٹر حسنات نے یہ کہہ کر ان سے شادی سے انکار کر دیا کہ وہ میڈیا کی لائم لائٹ سے دور رہنا چاہتے ہیں۔ پاپا رازی میڈیا کی غیر ذمہ داری نے شہزادی کی جان لے لی لیکن ڈاکٹر حسنات اس میڈیا کی چکا چوند سے خود کو نہ بچا سکے۔
2013 ء میں ایک برطانوی نشریاتی ادارے نے شہزادی کی زندگی پر ایک سیریل نشر کی جس میں ان کی زندگی کے آخری دو برسوںکو فوکس کیا گیا تو ڈاکٹر حسنات سے ان کے رومانس کی تفصیلات دنیا کے سامنے آنا ناگزیر ہوگئیں۔ ٹینا براؤن نامی صحافی نے ’’ڈیانا کرونکلز‘‘ نامی کتاب تصنیف کی جس میں شہزادی کی ذاتی زندگی سے متعلق ان کے ذاتی اسٹاف، دوستوں اور قریبی رشتے داروں سے ڈھائی سو سے زائد انٹرویوز کیے تو ان کی نا آسودہ ازدواجی زندگی اور ڈاکٹر حسنات کا ذکر ناگزیر تھا۔
شہزادی کی متعدد قریبی دوستوں نے گواہی دی کہ مصری نوجوان ’دودی فائد‘ جن کے ساتھ وہ پیرس کی ایک سرنگ میں تیز رفتاری کی وجہ سے ماری گئیں، کا ساتھ محض ڈاکٹر حسنات کو حسد کا شکار کرنا تھا ورنہ شہزادی کو اس نو دولتئے میں کوئی دلچسپی نہ تھی۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ نائن الیون سے چند سال قبل اگرڈٖیانا اس پاکستانی ڈاکٹر کو شادی پر راضی کرنے میں کامیاب ہوجاتیں توبڑھتے ہوئے اسلاموفوبیا کے اس دور میں دنیا پر پاکستان اور اسلام کے حوالے سے کیا اثرات مرتب ہوتے!
پاکستان کے موجودہ وزیر اعظم عمران خان کے شہزادی ڈیانا سے مراسم رہے۔ شہزادہ ولیم بچپن میں اپنی والدہ کے ہمراہ پاکستان آئے تو انہوں نے وزیر اعظم کے گھر کرکٹ کھیلی۔ آج بھی شہزادوں کے ان کی سابق اہلیہ جمائما اور بیٹوں سے مراسم ہیں۔ اُس وقت عمران اور جمائما میاں بیوی تھے۔ ڈیانا کی آخری رسومات کی لائیو فوٹیج میں بھی یہ دونوں دیکھے گئے تھے۔ آخری رسومات میں عمران خان مروجہ رسم کے مطابق سیاہ سوٹ میں ملبوس تھے۔آج بھی شاہی جوڑے کی وزیر اعظم سے ذاتی ملاقات میں کوئی سفارتی یا ڈپلومیٹک تصنع موجود نہیں تھا۔ خان کو برابری کی بنیاد پر سابق آقاؤں کے بچوں سے تعلقات دیکھ کر بہت سے لوگوں کو خوشی ہوئی۔
برطانوی شاہی جوڑے کے عوامی دورے کو برطانوی اخبارات نے بھی بہت کوریج دی۔ امید ہے اس سے پاکستان میں سیاحت کو بھی فروغ ملے گا اور مذہبی ہم آہنگی کو بھی۔ پاکستان میں مغرب سے نفرت اور بے جا تعصب کے روئیے میں بھی کمی آئے گی۔ شاہی جوڑے کے پروگرام میں پاک افغان سرحد کے ایک علاقے کا دورہ بھی شامل تھا جو خبروں کے مطابق موسم کی خرابی کی وجہ سے ممکن نہ ہوا۔
اہم بات جو بہت کم لوگوں کو معلوم ہے وہ یہ ہے کہ ولیم کے والد شہزادہ چارلس خود مذہبی ہم آہنگی کے فروغ میں کوشاں رہے ہیں۔ اکتوبر2006ء میں ہونے والے دورے کے دوران برطانوی اخبار ’گارڈین‘ کی رپورٹ کے مطابق شہزادہ چارلس کو اسلام اور مغرب کے مابین تقسیم کے تناظر میں ایک پل کی حیثیت سے دیکھا جاتا ہے۔ یہ ’مسلم ہیریٹیج‘ نامی ایک ادارے کے سر پرست بھی ہیں جس نے قرون وسطیٰ کے زمانوں کی مسلم ایجادات پر مشتمل نمائش دنیا کے اہم شہروں میں منعقد کی اور ماضی کی شاندار اسلامی تہذیب کو دنیا کے سامنے لانے کا سبب بنی۔ اس ادارے کی سرپرستی ظاہر کرتی ہے کہ اسلامو فوبیا کے اس دور میں شہزادہ چارلس اسلام کا اصل چہرہ دنیا کے سامنے لانے میں ذاتی دلچسپی رکھتے ہیں۔
2006ء میں ان کے مدرسے کا دورہ اگر ممکن ہو جاتا تو دنیا میں پاکستان، دینی مدارس اور خود اسلام کے بارے میں ایک مثبت تصویر ابھرتی لیکن ان کے دورے کے دوران باجوڑ حملے نے جسے پاکستانی فوج کے ترجمان اور افغانستان میں امریکی فوج نے پاکستانی فوج کی اپنی کاروائی قرار دیا، اسے منسوخ کرنے پر مجبور کردیا۔ سوال یہ ہے کہ یہ حملہ ایسے وقت میں کیوں کیا گیا جب اسلام اور مغرب کے درمیان پل کا کردار ادا کرنے کے حوالے سے معروف شہزادہ چارلس ایک مسلمان ملک کے دورے پر تھے۔
یاد رہے کہ جس روز فجر سے پہلے یہ حملہ کیا گیا، اس روز پاک فوج اور قبائلیوں کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا جانا تھا اور اس مدرسے کے مہتمم مولانا لیاقت اس معاہدے میں کلیدی کردار ادا کر رہے تھے۔’لونگ وار‘ نامی ایک تحقیقی جریدے نے اپنی ایک رپورٹ میں یہ سوال اٹھائے کہ ایسے وقت میں جب معاہدہ ہونے جا رہا تھا، اس حملے کا کیا جواز تھا؟ ظاہر ہے کہ حملے کا مقصد معاہدے کو سبوتاژ کرنا تھا لیکن شہزادہ چارلس کے مدرسے کے دورے کو منسوخ کرنا بھی اس کا ایک مقصد ہو سکتا ہے۔ سوال یہ بھی ہے وہ کون سے عناصر تھے جو چاہتے تھے کہ معاہدہ نہ ہویا شہزادہ مدرسے کا دورہ نہ کریں؟ پاکستانی فوج یا ان کے حلیف امریکی؟
مولانا لیاقت اللہ پر یہ الزام عائد کیا گیا کہ انھوں نے القاعدہ کے دہشت گردوں کو پناہ دی ہوئی تھی۔ ایک اہم مغربی اخبار نے لکھا کہ اگر ٹارگٹ مولانا تھے تو انہیں ان کے گھر سے مدرسے کے راستے میں کسی جگہ مارا جا سکتا تھا، یوں بڑی تعداد میں طلبہ کی جان بچائی جاسکتی تھی۔ عین فجر کے وقت مدرسے کے اندر حملے کا فیصلہ کس کا تھا؟’بورو آف انویسٹی گیشن‘ نامی تحقیقی ادارے کا یہ بھی کہنا ہے کہ حملے کا جواز ایمن الزواہری کی وہاں موجودگی بھی بتائی گئی حالانکہ ایمن الظواہری کبھی باجوڑ نہیں گئے۔ بعد ازاں خود مغربی میڈیا کی تحقیق کے مطابق یہ امریکی ڈرون کا حملہ ثابت ہوا جس میں پاکستانی ہیلی کاپٹر بھی شامل تھے۔
عالمی جریدے ’اکنامسٹ‘ کے مطابق دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان پر اس حوالے سے تنقید ہوتی رہی ہے کہ یہ مغربی رہنماؤںکے دوروں سے پہلے مشتبہ دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر حملے کرتے ہیں تاکہ مغرب کو یہ بتایا جا سکے کہ پاکستان دہشت گردی کی جنگ میں اپنا حصہ ڈال رہا ہے۔
اس سے قبل صدر بش کی پاکستان آمد کے موقع پر بھی ایک کاروائی کی گئی۔ یاد رہے کہ صدر بش کے برعکس جن کے پروگرام میں اسلام آباد سے باہر کسی مقام کا دورہ شامل نہیں تھا ، شہزادہ چارلس اور ان کی اہلیہ کے دورے میں پاک افغان بارڈر اور شمالی علاقہ جات کے مختلف علاقوں کا دورہ بھی شامل تھا۔
اگر پشاور کے مدرسے کا دورہ ممکن ہوتا تو بڑھتے ہوئے اسلاموفوبیا کے اس دور میں دنیا کو پاکستان، دینی مدارس اور خوداسلام کے بارے میں ایک مثبت تاثر ملتا جو شاید اسلاموفوبیا کی انڈسٹری کے کرتا دھرتاؤں کو منظور نہیں تھا۔ امید ہے کہ اب تیرہ برس بعد ،شہزادہ ولیم اور ان کی اہلیہ کیٹ مڈلٹن کا دورہ پاکستان اور اس کی بڑھتی ہوئی سیاحتی انڈسٹری کے بارے میں ایک مثبت تاثر قائم کرنے میں بھی مدد دے گا اور بین المذاہب ہم آہنگی کے فروغ میں بھی۔
جے یو آئی کا حکومت کی دی گئی ڈیڈ لائن میں توسیع اور آل پارٹیز بلانے کا فیصلہ
اسلام آباد میں پولیس اور رینجرز نے فلیگ مارچ بھی کیا فوٹو: فائل
اسلام آباد: اپنے مطالبات کی منظوری کے لیے مولانا فضل الرحمان کی حکومت کو دی گئی ڈیڈ لائن کا آج آخری روز ہے تاہم جے یو آئی نے ڈیڈ لائن میں ایک دن کی توسیع اور کسی بھی حتمی اقدام کے لیے آل پارٹیز بلانے کا فیصلہ کیا ہے۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق اسلام آباد میں جمعیت علمائے اسلام (ف) کے آزادی مارچ کے شرکا چوتھے روز بھی موجود ہیں۔ مارچ میں شریک جے یو آئی (ف) کے کارکنوں کا جوش و ولولہ تاحال جوان ہے۔ نمازِ فجر کے بعد سے آزادی مارچ کے شرکاء مختلف سرگرمیوں میں مشغول ہیں۔
ایک جانب کارکنوں کی بڑی تعداد نے اپنی مدد آپ کے تحت پنڈال کی صفائی کی تو دوسری جانب کارکن کھیل تماشوں میں بھی مصروف رہے۔ کہیں کارکن فٹبال کھیلتے دیکھے گئے تو کہیں چادر کی مدد سے اپنے ساتھی کو فضا میں اچھالتے نظر آئے۔
دوسری جانب مولانا فضل الرحمان کی سربراہی میں پارٹی کا اہم اجلاس منعقد ہوا جو چھ گھنٹے تک جاری رہا جس میں مرکزی شوریٰ ارکان اور صوبوں کے امیر شریک ہوئے۔ اجلاس میں حکومت کو دی گئی ڈیڈ لائن کے بعد اگلی حکمت عملی پر حتمی مشاورت کی گئی، اجلاس کے فیصلوں کا اعلان مولانا فضل الرحمان پنڈال میں کریں گے۔
دھرنے میں ایک دن کی توسیع، آل پارٹیز بلانے کے فیصلے
ذرائع کے مطابق مولانا فضل الرحمان نے وزیر اعظم کو استعفی کے لیے دی گئی ڈیڈی لائن میں ایک دن کی توسیع اور بعد کا لائحہ عمل طے کرنے کے لیے آل پارٹیز کانفرنس طلب کرنے کا بھی فیصلہ کیا ہے۔ آل پارٹیز کے لیے اکرام درانی کو دیگر جماعتوں کے قائدین سے رابطوں کا ٹاسک دیا گیا ہے، اے پی سی کا دن اور وقت رابطوں کے بعد طے کیا جائے گا۔
پولیس و رینجرز کا فلیگ مارچ
اسلام آباد میں امن و امان کی صورت حال برقرار رکھنے کے لیے پولیس اور رینجرز کی جانب سے فلیگ مارچ کیا گیا۔ اس حوالے سے ترجمان اسلام آباد پولیس نے کہا ہے کہ اسلام آباد پولیس ہر قسم کی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لیے تیار ہے، پولیس ہائی الرٹ اور افسران و جوانوں کا مورال بلند ہے، شہریوں کی جان و مال کے تحفظ کے لیے ضروری اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں، مختلف مقامات پرپولیس کی بھاری نفری تعینات کردی گئی ہے، کسی بھی شخص کو قانون ہاتھ میں لینے کی ہرگز اجازت نہیں دی جائے گی۔
'خلا میں روزے رکھنے کا تجربہ میں کبھی نہیں بھول سکتا'
ماہ رمضان کا آغاز ہونے والا ہے مگر کیا آپ یقین کریں گے دنیا میں کم از کم ایک شخص ایسا ہے جس نے زمین سے باہر خلا میں روزہ رکھا۔
ی ہاں 1985 میں خلا میں جانے والے پہلے عرب خلا باز شہزادہ سلطان بن سلمان نے 1405 ہجری کے رمضان میں امریکی اسپیس شٹل ڈسکوری کے سفر کے دوران روزہ رکھا۔
کچھ عرصے پہلے عرب نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے شہزادہ سلطان نے اس بارے میں اپنے تاثرات کے بارے میں بتایا۔
انہوں نے بتایا کہ اپنے ناقابل فراموش خلائی سفر کے دوران انہوں نے 6 دن میں قرآن مجید کو ختم کیا اور اس کے لیے انہوں نے اپنے سونے کا وقت مختص کیا تھا۔
وہ 29 ویں روزے کے دن خلائی سفر پر روزانہ ہوئے تھے اور انہوں نے خلا میں روزے کو ناقابل فراموش تجربہ قرار دیا۔
ان کا کہنا تھا 'اس سال رمضان کا مہینہ گرم موسم میں آیا تھا، جبکہ میں ہیوسٹن میں اسپیس سینٹر میں اس سفر کے لیے خصوصی تربیت لے رہا تھا، تربیت کے دوران ہمیں شدید گرمی اور پیاس کی کیفیات سے گزارا گیا،یہ سفر پہلے 24 رمضان کو شیڈول تھا مگر 29 ویں روزے تک التوا میں چلا گیا'۔
اس تربیت کے دوران وہ روزے رکھتے رہے اور ناسا کے ڈاکٹرز نے روزے سے ان کی صحت پر مرتب ہونے والے اثرات کا تجزیہ بھی کیا۔
29 ویں روزے کو وہ اپنی ٹیم کے ہمراہ خلائی شٹل پر روزہ رکھ کر سوار ہوئے جبکہ خلا میں روزے کے اوقات کے حوالے سے انہوں نے سعودی عالم شیخ عبدالعزیز بن باز سے مشورہ بھی کیا۔
سعودی شہزادے کا کہنا تھا 'مذہبی عالم نے مجھے بتایا کہ میں سحر اور افطار اس وقت کے مطابق کروں جہاں سے میں روزہ رکھ کر سفر پر روزانہ ہوا تھا، میں نے اپنا سفر فلوریڈا سے کیا تھا'۔
انہوں نے اس امریکی ریاست میں سورج غروب ہونے کا وقت ذہن میں افطار کیا جبکہ انہوں نے ریڈیو میں سنا کہ سعودی عرب میں اگلے دن عید ہے۔
تاہم انہوں نے خلا میں دیکھا کہ اس دن نیا چاند انہیں نظر نہیں آیا بلکہ اگلے دن انہوں نے نئے چاند کو دیکھا اور سعودی سائنسی ٹیم کو اس بارے میں آگاہ کیا۔
اس کے بعد سعودی حکام نے تحقیقات کرکے تصدیق کی کہ رمضان کا ایک روزہ رہ گیا ہے اور اس کا کفارہ ادا کرنا ہوگا۔
انہوں نے اس خلائی سفر کے دوران نمازیں زمین کے اوقات کے مطابق پڑھیں جبکہ وضو کے لیے گیلے نیپکن کا استعمال کیا کیونکہ وہاں کشش ثقل نہ ہونے کی وجہ سے پانی سے وضو کرنا مشکل تھا۔
ایونجرز اینڈ گیم نے فلم ٹائی ٹینک کا ریکارڈ توڑ دیا
ہالی ووڈ کی سائنس فکشن فلم ایونجرز اینڈ گیم نے ٹائیٹنک کا ریکارڈ توڑ دیا ہے۔ ایونجرز اینڈ گیم نے دس روز میں دو ارب بیس کروڈ ڈالرز کمالیے۔ دنیا بھر کے سینما گھروں میں فلم کی کھڑکی توڑ نمائش جاری ہے۔
ڈزنی اسٹوڈیوز کی اس فلم نے ایک ارب کا ہدف عبور کرنے میں صرف پانچ دن لیے اور یوں وہ پہلی فلم بن گئی جس نے ریلیز کے ابتدائی پانچ دنوں میں ہی ایک ارب امریکی ڈالر کمائی کی حد پار کی۔
اینڈ گیم‘ مارول اسٹوڈیوز سپر ہیرو فرنچائز کی 22ویں پیش کش ہے۔ اینڈ گیم نے اوینجرز سیریز کی گزشتہ برس ریلیز ہونے والی فلم 'انفنیٹی وار' کا ابتدائی دنوں میں 64 کروڑ امریکی ڈالر کی کمائی کا ریکارڈ بھی توڑ دیا ہے۔
والٹ ڈزنی سٹوڈیوز کے چئیرمین الین ہارن نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’اینڈ گیم مارول کی سنیمائی کائنات کا اختتام نہیں بلکہ ابھی بہت کچھ باقی ہے۔ واضح رہے کہ اوینجرز فرنچائز کی پہلی فلم آئرن مین سنہ 2008 میں ریلیز ہوئی تھی۔ اینڈ گیم کو نقادوں کی جانب سے مثبت ریویوز ملے ہیں جب کہ روٹن ٹومیٹوز پر کچھ روز قبل اس کی ریٹنگ 96فیصد رہیمارول اسٹوڈیوز کے ساتھ کام کرنے والے سُپر ہیروز میں سب سے زیادہ معاوضہ رابرٹ ڈاؤنی جونیئر نے وصول کیا۔ اسکارلیٹ جونسن (بلیک وِڈو)، کرس ایوانز (کیپٹن امریکا) اور کرس ہیمز ورتھ (تھور) نے مارول کی فلموں میں کام کرنے کیلئے 15 سے 20 ملین ڈالر کا معاوضہ وصول کیا۔